امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا ترکی اور فرانس کے درمیان حالیہ کشیدگی کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔ نیٹو کے دو اتحادی ممالک کے درمیان ’’غیر ضروری‘‘ لڑائی سے صرف ہمارے دشمن ہی کو فائدہ پہنچے گا۔‘‘
یہ بات امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے گفتگو کرتے ہوئے کہی ہے۔ترکی اور فرانس کے درمیان اسی ہفتے گستاخانہ خاکوں کے معاملے پرپیدا ہونے والا تنازع شدت اختیار کرگیا ہے اور صدر رجب طیب ایردوآن نے ترکوں سے فرانسیسی اشیاء کے بائیکاٹ کی اپیل کی ہے۔ انھوں نے سوموار کو یورپی یونین کے لیڈروں پر زوردیا تھا کہ وہ فرانسیسی صدر عمانوایل ماکروں کے اسلام مخالف ایجنڈا کو روکیں۔
انھوں نے ہفتے کے روز فرانسیسی صدر کے بارے میں یہ کہا تھا کہ انھیں مسلمانوں سے مسئلہ درپیش ہے اور انھیں اپنی ذہنی صحت کے معائنے کی ضرورت ہے۔اس بیان کے ردعمل میں فرانس نے انقرہ میں متعیّن اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے۔
ترک صدر نے سوموار کو ایک بیان میں کہا:’’ جس طرح وہ یہ کہتے ہیں کہ فرانس میں ترک برانڈز کی اشیاء کی خریداری نہ کی جائے،اسی طرح میں بھی اپنے تمام شہریوں پر زوردیتا ہوں کہ وہ کبھی فرانسیسی برانڈز کی مدد کریں اور نہ انھیں خرید کریں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ’’یورپ میں مسلمانوں کو بالکل اس طرح کی ’’نسلی تطہیری مہم ‘‘ کا سامنا ہے،جس طرح کی مہم دوسری عالمی جنگ سے قبل یہود کے خلاف برپا کی گئی تھی۔‘‘انھوں نے بعض مغربی لیڈروں پر اسلام فوبیا کا چیمپئن ہونے کا الزام عاید کیا ہے اور انھیں فاشسٹ قرار دیا ہے۔
انھوں نے کسی مغربی لیڈر کا نام لیے بغیر کہا کہ ’’آپ حقیقی معنوں میں فاشسٹ ہیں اور آپ کا سلسلہ نازی ازم سے جا کر جڑ جاتا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ پیرس کے نواح میں ایک اسکول میں تاریخ کے فرانسیسی استاد نے اسی ماہ کے اوائل میں اپنی جماعت میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکے دکھائے تھے۔اس پر ایک چیچن نژاد نوجوان طیش میں آگیا تھا اور اس نے 16 اکتوبر کو اس فرانسیسی استاد کا سرقلم کردیا تھا۔
فرانسیسی صدر ماکروں نے اس مقتول استاد کی حرکت کا اظہار رائے کی آزادی کے نام پر دفاع کیا تھا اور اس کو خراج عقیدت پیش کیا تھا۔انھوں نے ’’اسلامیت علاحدگی پسندی‘‘ سے جنگ کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ فرانس میں بعض مسلم کمیونیٹیوں کو اس سے خطرات لاحق ہیں۔
ان کے اس طرزعمل کا طیب ایردوآن نے ترکی بہ ترکی جواب دیا اور کہا کہ ’’یورپی لیڈروں کو عمانوایل ماکروں کے اسلام مخالف ایجنڈے کو روکنا چاہیے۔‘‘ لیکن اطالوی وزیراعظم سمیت بعض یورپی لیڈروں نے ترک صدر کے عمانو ایل ماکروں کے بارے میں ان بیانات کو ناقابل قبول قرار دے کر مذمت کی ہے۔
دونوں لیڈر پہلے بھی ایک دوسرے کے خلاف تند وتیز بیانات جاری کرتے رہے ہیں۔عمانوایل ماکروں نے جولائی میں ترک حکومت پر شام سے انتہا پسند جنگجوؤں کو لیبیا میں منتقل کرنے کا الزام عاید کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اقوام متحدہ کی لیبیا پر اسلحہ کی پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شام سے طرابلس میں جنگجوؤں کو لارہی ہے۔
یاد رہے کہ امریکا ،ترکی اور فرانس تینوں معاہدہ شمالی اوقیانوس کی تنظیم نیٹو میں شامل ہیں لیکن ان کے درمیان شام ، لیبیا ، مشرقی بحرمتوسط کی ساحلی حدود اور ناگورنوقراباغ میں آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان جاری نئے تنازع سمیت پر مختلف امور کے بارے میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔