پاکستان ڈیموکرٹیک موومنٹ (پی ڈی ایم) اپنی پہلی اننگز گوجرانوالہ، کراچی اور کوئٹہ میں کھیلنے کے بعد وقفہ آرام میں ہے۔پی ڈی ایم کے طے شدہ شیڈول کے مطابق دوسرے فیز میں 22 نومبر پشاور، 30 نومبر ملتان،13 دسمبر لاہور جب کہ 27 دسمبر کو لاڑکانہ میں جلسے ہوں گے۔حکومت مخالف اتحاد کے تینوں جلسے، حزب اختلاف کے نزدیک تینوں جلسے، پاور فُل شو اور حکومت گھبرا کر بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکی، جب کہ حکومت کے مطابق تینوں جلسے، جلسی تھے اور 11جماعتی اتحاد میں کم لوگ آئے۔عوام کے نزدیک جلسوں سے سیاسی حرارت تو پیدا ہوئی ہے لیکن یہ دسمبر کے سخت جاڑے میں کتنی کارگر ہو گی، اس پر مختلف قیاس آرائیاں ہیں۔ بالخصوص جنوری2021میں اسلام آباد لانگ مارچ و اپوزیشن کے استعفوں کے آخری آپشن پر تاحال حتمی طور کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
پی ڈی ایم کا دعویٰ ضرور سامنے آیا ہے کہ جنوری تک حکومت ختم ہوجائے گی، جب کہ حکومت کا کہنا ہے کہ اپوزیشن’فارغ‘ ہوجائے گی۔ یہ تمام قیاس آرائیاں ہیں یا پھر طے شدہ پلان، اس پر سیاسی پنڈتوں نے اپنے گہرے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔اس وقت جو مجموعی صورتحال سامنے آئی ہے، اس میں دونوں فریقین کی ناپختہ سیاسی بلوغت و عدم برداشت کو محسوس کیا جاسکتا ہے، بالخصوص حکومتی بیانیے میں لفظوں کا چناؤ کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا، کوئی صاحب ِ علم اپنی گفتگو میں ایسے جملوں و لفظوں کا استعمال نہیں کرتا، جس سے ظاہر ہو کہ وہ فرسٹریشن کا شکار ہے، بلکہ کلّی طور پر سنجیدگی و تدبر کے ساتھ برداشت و نظم کے مظاہرے پر خصوصی توجہ مرکوز رکھنے کو کامیابی تصور کیا جاتا ہے۔
پی ڈی ایم کے تینوں جلسوں میں ریاستی ادارے کے سربراہان کے خلاف بڑی سخت زبان استعمال کی گئی،کسی کے خلاف تنقید، دائرے میں رہتے ہوئے کرنا، اصلاح کا پہلو شمار کیا جاتا ہے، لیکن وہی عمل جب اقتدار سے ہٹ کر کیا جائے تو اس پر سوال ضرور اٹھتے ہیں، عمران خان جب اپوزیشن کی سیاست کرتے تھے، تو انہوں نے بھی اسٹبلشمنٹ کے خلاف متعدد مواقعوں پر سخت بیانیہ اپنایا، لا پتا افراد پر بھی ان کا موقف ڈھکا چھپا نہیں تھا، اقتدار میں آنے کے بعد سیاسی بیانیہ، تبدیل ہوکر ریاستی بن گیا۔اسی طرح پی ڈی ایم کی دو بڑی سیاسی جماعتیں جب تک اقتدار میں رہیں، انہوں نے بھی ریاستی اداروں کے سربراہان کے خلاف وہ طرز عمل اختیار نہیں کیا، جو اب انہوں نے اپنی ہارڈ لائن بنا لی ہے۔
سیاسی سے ریاستی بیانیہ اپنی باری پر اپنانے کے باعث عوام کا اعتماد کسی سیاسی جماعت پر کامل نہیں، جلسوں میں کارکنان کی بڑی تعداد ضرور شریک ہوئی، لیکن عوام کی بیداری کی تحریک میں کسی بڑے بریک تھرو کی امید کم ظاہر کی جا رہی ہے۔ حکومت، عوامی مسائل کو حل کرنے میں مشکلات کا شکار ہے، وزیر اعظم ان سوا دو برس میں اتنا تو ضرور جان چکے کہ ان کی ٹیم، وہ ڈیلیور نہیں کرپا رہی جس کی انہیں امید تھی، لیکن ان کی شاید مجبوری ہو کہ وہ سیاسی پرندوں کی زیاد ہ اکھاڑ پچھاڑ بھی نہیں کرسکتے کیونکہ ایک جانب تو پی ٹی آئی کے اقتدار کی کرسی اتحادیوں کی مرہنون منت ہے، تو دوسری جانب الیکٹیبلز کی بڑی تعداد بھی ان کی جماعت میں شامل ہے، جس دن الیکٹیبلز کو احساس ہوا کہ اب تلوں میں تیل نہیں رہا تو موسمی پرندوں کی طر ح اُڑ جائیں گے اور عمران خان کچھ کرنا بھی چاہیں تو دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح صرف تماشہ ہی دیکھتے رہ جائیں گے۔
پی ڈی ایم اگلے ماہ جلسوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کرے گی، اس حوالے سے انہیں تینوں جلسوں کا اپنے بیانیہ کے مطابق ہونے کا موازنہ کرنا ضروری ہوگا،تاکہ آئندہ کی سیاسی حکمت عملی پرعوام کی توجہ حاصل کرسکیں۔ فی الوقت تینوں جلسوں میں عسکری قیادت کے خلاف بیانیہ کو عوامی پزیرائی نہیں ملی، کیونکہ پاکستانی عوام اپنی فواج سے دیرینہ محبت کرتی ہے نیزدرپیش مسائل کا سبب سابق فوجی حکمرانوں کو سمجھنے کے بجائے سیاسی قیادت کو ہی قرار دیتے ہیں، کیونکہ سیاسی جماعتوں کے درمیان بدترین اختلافات اور ان کی درخواستوں پر ہی عنان حکومت فوج کے سربراہ نے سنبھالا (جنہیں اب آمر کہا جاتا ہے)، آئین میں، ایسی حکومتوں کے لئے گنجائش رکھنے والی یہی سیاسی جماعتیں ہی ہیں۔ پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں نے اپنے دورِ اقتدار میں ان چھپے راستوں کو بند کرنے کی سنجیدگی سے کوشش نہیں کی، جس سے کسی کو بھی غیر جمہوری طریقے سے آئین معطل کرنے کا حق مل جاتا ہے۔ پی ڈی ایم اپنے جلسوں کے دوسرے فیز میں حقیقی اپوزیشن ہونے کا مظاہرہ کرے تو یہ زیادہ بہتر ہوگا، کیونکہ پہلے فیز کے جلسوں کے بعد حزب اختلاف کی پارلیمان میں شرکت نے اس تاثر و بیانیہ کو کھو دیا ہے کہ”موجودہ حکومت غیر آئینی ہے اور وہ ایسی غیر فعال پارلیمنٹ کو نہیں مانتے،جہاں قانون سازی نہیں ہوتی“۔
جلسے جلوس، مظاہرے ہر سیاسی جماعت کا ’جمہوری‘ حق ہے، اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ حکومتی پالیسیوں کی غلط سمت پر پارلیمنٹ کے ساتھ جلسوں سے بھی دباؤ بڑھایا جاسکتا ہے، لیکن حکومت گرانے کے لئے آئین میں جو طریقہ دیا گیا ہے، اس کے علاوہ کسی دوسرے دروازے سے آنا،نیک شگون نہیں قرار دیا جاسکتا۔ وطن عزیز میں جمہوری اقدار اتنی قوی نہیں ہوئی ہیں کہ انہیں کسی ایڈونچر سے خطرات نہ ہوں، اس لئے اَمر کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ جلسوں میں لمبی رخصت تک تو ٹھیک ہے کہ سیاسی بیانیہ درست کرلیا جائے، تاہم اگر یہ سمجھا جارہا ہے کہ ریاست مخالف بیانیہ میں شدت سے کوئی تبدیلی لازماََ آئی گی، تو یہ خدشات ضرور سامنے رکھیئے گا کہ پھر پی ڈی ایم لمبی چھٹی پر بھی جا سکتی ہے۔