سعودی عرب (اصل میڈیا ڈیسک) سعودی عرب نے بیس ریال کا جو نیا بینک نوٹ جاری کیا ہے اس میں جموں و کشمیر سمیت لداخ کو بھارت میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ بھارت نے اسی سلسلے میں سعودی حکومت سے اپنا سخت احتجاج درج کیا ہے۔
بھارت کا کہنا ہے کہ علاقائی حدود سے متعلق غلط بیانیوں کے لیے اس نے سعودی عرب سے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس حوالے سے فوری طور پر اصلاحی اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے سعودی عرب نے 20 ریال کا اپنا جو کرنسی نوٹ جاری کیا ہے اس پر بھارت کے نقشے میں جموں و کشمیر سمیت لداخ کے کسی بھی خطے کو بھارت کا حصہ نہیں دکھایا گیا ہے۔
بھارت نے اسی حوالے سے اپنے دوست ملک سعودی عرب سے شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستو نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ انہیں سعودی عرب کے نئے بینک نوٹ کے بارے میں معلوم ہے جس پر، ”بھارت کی بیرونی سرحدوں کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ نوٹ سعودی عرب کے حکام نے جی 20 سربراہی اجلاس کی صدارت کرنے کی یادگار کے طور پر 24 اکتوبر کو جاری کیا تھا۔”
انوراگ سری واستو کا کہنا تھا کہ اس بارے میں، ”ہم نے، یہاں نئی دہلی میں ان کے سفارتکار کے ذریعے اور ریاض میں بھی سفارتی چینل کے ذریعے، اپنی شدید تشویشات سے سعودی عرب کو آگاہ کر دیا ہے۔ سعودی عرب کے سرکاری اور قانونی بینک نوٹ پر بھارت کے سرحدی علاقوں کو غلط طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ہم نے سعودی عرب سے اس بارے میں فوری طور پر اصلاح کرنے کو کہا ہے۔”
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس موقع پر ایک بار پھر جموں و کشمیر سے متعلق حسب معمول اپنا بیان دہراتے ہوئے کہا کہ ”میں اس بات کا اعادہ کرتا ہوں کہ جموں و کشمیر اور لداخ سمیت مرکز کے زیر انتظام علاقے بھارت کا اٹوٹ حصہ ہیں۔”
چند روز قبل ہی کی بات ہے ٹویٹر نے متنازعہ خطہ لداخ کے مرکزی شہر لیہ کو چین میں دکھا یا تھا اور اس پر بھی بھارت نے سخت ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ کمپنی کو، ”بھارتی عوام کے احساسات کا خیال رکھنا چاہیے۔” بھارت نے اس سلسلے میں ٹویٹر کے سربراہ کے نام اپنے ایک مکتوب میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ کمپنی کو لداخ سے متعلق اپنے نقشے کو فوری طور پر درست کرنے کی ضرورت ہے۔
ٹویٹر نے اپنی لوکیشن سیٹنگ میں خطہ لداخ کے مرکزی شہر لیہ کو چین میں دکھایا تھا۔ لیہ شہر سے ایک براہ راست نشریاتی پروگرام کے دوران اس کے جیو ٹیگنگ فیچر میں لیہ ”جموں اینڈ کشمیر، پیپلز ریپبلک آف چائنا” کے نام سے دکھائی دے رہا تھا۔ اس پر سوشل میڈیا کے بہت سے بھارتی صارفین نے بھی اعتراض کیا تھا جس کے بعد بھارتی حکومت نے بطور احتجاج ٹویٹر کے سربراہ جیک ڈروزی کے نام ایک خط تحریر کیا تھا۔
اس برس جی 20 سربراہی اجلاس کی صدارت سعودی فرما روا شاہ سلمان نے کی تھی۔ اجلاس کی میزبانی بھی سعودی عرب نے کی جو دارالحکومت ریاض میں ہونی تھی تاہم کورونا وائرس کی وبا کے وجہ سے یہ کانفرنس آن لائن ہوئی۔ اسی کی یاد میں سعودی عرب نے اپنا 20 ریال کا جو نیا بینک نوٹ جاری کیا ہے اس پر عالمی نقشہ بھی موجود ہے۔ نوٹ پر شائع ہونے والے اس نقشے میں جموں و کشمیر سمیت لداخ کو بھارت میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق اس نوٹ پر شائع ہونے والے نقشے پر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی شامل نہیں کیا گیا ہے۔ پاکستان بھی سعودی عرب کو اپنا اتحادی ملک سمجھتا ہے تاہم حالیہ کچھ مہینوں سے دونوں کے رشتوں میں تلخی بھی دیکھی گئی ہے اور باور کیا جاتا ہے کہ کشمیر کے پاکستانی علاقوں کو نقشے میں شامل نا کر کے سعودی عرب نے ایک طرح سے پاکستان کے ساتھ بھی خفگی کا اظہار کیا ہے۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران سعودی عرب اور بھارت کے درمیان قربتیں بڑھی ہیں۔ مودی کی حکومت نے خلیجی ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات بہتر کرنے کے ساتھ ہی سفارتی رشتے بھی مضبوط کیے ہیں۔ عرب ممالک نے بھارت میں زبردست سرمایہ کاری کی ہے اور بھارت میں وہ اپنے تجارتی مفاد کے لیے مودی حکومت سے کافی قریب ہوئے ہیں۔
گزشتہ برس جب سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے بھارت کا دورہ کیا تھا تو تمام سفارتی ضابطوں کو درکنار کرتے ہوئے خود مودی ان کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ تک گئے تھے۔ اسے بھارت اور سعودی عرب کے درمیان نئے دور کے آغاز سے تعبیر کیا گیا تھا۔ خلیجی ممالک انہیں تجارتی مفاد کے مد نظر کشمیر کے سوال پر پاکستان کے موقف کی تائید سے بھی نظریں چراتے رہے ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت اور سعودی عرب کے شاہی خاندان کے درمیان قربتیں کافی بڑھ چکی ہیں ایسے میں یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ اس نقشے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔ کیا شاہی خاندان اس سے بے خبر تھا؟ اگر ہاں تو کیا نوٹ تصحیح کے بعد دوبارہ شائع ہوگا؟ اور اگر نہیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ مودی کی خارجہ پالیسی بھی موثر نہیں ہے۔