پاکستان میں ہر سال 12 ربیع الاوّل کو فخرِ موجودات، سرور کائنات، خاتم النبیین، رحمت العالمین حضرت محمد ۖ کا جشنِ ولادت پورے تزک واحتشام سے منایا جاتاہے۔ دِن کا آغاز توپوں کی سلامی سے ہوتا ہے اور پھر سارا دن ملک بھر میں محافلِ میلاد، جلوس، ریلیاں، سیمینارز اور مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جاتاہے۔ درودوسلام کی صدائیں فضاؤں کو معطر کرتی رہتی ہیں۔ شام کو مسجدوں، بڑی بڑی نجی وسرکاری عمارتوں، گلی کوچوں اور بازاروں کو برقی قمقموں سے سجایا جاتاہے۔ اِس با سعادت دِن کی تقاریب میں بچے، بوڑھے، جوان اورزندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد بڑھ چڑھ کر شریک ہوتے ہیں۔ کیوں شریک نہ ہوں کہ یہ تو وہی دن ہے جب ظلمت کے اندھیرے چاک ہوئے۔
یہ اُس مبارک ہستی کی پیدائش کا دن ہے جس پر رَبِ لَم یزل اور فرشتے درود بھیجتے ہیں اور مومنین کو بھی کثرت سے درود بھیجنے کا حکم دیا گیاہے۔سوال مگر یہ ہے کہ کیا ہاتھوں میں سبز پرچم تھامنے، ڈی جے کی دھنیں بجانے، سبیلیں لگانے، دیگیں چڑھانے، حلوے تقسیم کرنے اور بینڈباجے میں اتباعٔ رسول ۖ مضمر ہے؟۔ کیا صبح سے شام تک گلیوں اور بازاروں کو جلوسوں اور ریلیوں سے بند کرنا رسولِ مہرباںۖ کی پیروی ہے؟۔ کیا علمائے کرام ایسی کوئی ایک مثال بھی پیش کر سکتے ہیںجس میں صحابہ کرام رضوان علیہم نے عشق ومستی میں اپنے حواس کھو کر اظہارِ محبت کے نِت نئے انداز اپنائے ہوں؟۔ لاریب! صحابہ کرام کی حضورۖ سے محبت تاقیامت بے مثل رہے گی۔ قولِ علی ہے ”اللہ کی قسم رسولۖ اللہ ہمیں اپنے اموال، اولاد، باپ دادا اور ماؤں سے بھی زیادہ عزیز تھے۔ کسی پیاسے کو پانی سے جو محبت ہوتی ہے، ہمیں رسول اللہۖ اِس سے بھی بڑھ کر محبوب تھے”۔ ابو سفیان نے قبولِ اسلام سے پہلے ایک دن محفل میں بَرملا کہا ”میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جو دوسروں سے ایسی محبت کرتاہے جیسی محبت صحابہ، محمدۖ سے کرتے ہیں”۔
صحابہ کرام کی رسول اللہۖ سے الفت ومحبت اور عقیدت کے بارے میں مولانا ابوالکلام آزاد رقمطراز ہیں ”دنیا میں انسانوں کے کسی گروہ نے کسی انسان کے ساتھ اپنے دِل اور اپنی روح سے ایسا عشق نہیں کیا ہوگا جیسا صحابہ کرام نے رسول اللہۖ سے کیا”۔ خود فخرِموجودات کا فرمان ہے ”تحقیق کہ تمہارا دین اُتنی دیر تک مکمل نہیں ہوتا جب تک کہ میں تمہارے نزدیک تمہارے ماں باپ، بہن بھائی، اولاد، عزیز رشتے دار، احباب حتیٰ کہ دنیا کی ایک ایک چیز سے پیارا نہ ہوجاؤں” (مفہوم)۔ جب یہ طے ہو چکا کہ صحابہ کرام کی سرورِکائنات سے الفت ومحبت لاثانی ولافانی ہے تو پھرکیا ہم عشقِ رسولۖ کا وہی انداز اپنائیں جو صحابہ کرام نے اپنایا، یا محبت کے نِت نئے اندازاپناتے رہیں۔ صحابہ کرام کے نزدیک اتباعِ رسولۖ ہی میںراہِ نجات تھی اور یہی اتباع اُنہیں عشق ومستی کی رفعتوں سے روشناس کراتا تھا۔ اگر ہم بھی اپنی دنیا وآخرت سنوارنا چاہتے ہیںتو اسوۂ حسنہ کی پیروی ہی میں راہِ نجات ہے۔
سورة العمران میں ارشاد ہوا ”کہہ دیجئے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری (محمدۖ) اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا، تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے”۔ سورة الاحزاب آیت 12 میں اتباعِ رسولۖ کا یوں حکم دیاگیا ”یقیناََ اللہ کے رسولۖ کی ذات تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے”۔ اِن احکاماتِ ربانی کی روشنی میں تو ہماری زندگی کا ہر گوشہ اتباعِ رسولۖ سے منور ہونا چاہیے لیکن ہم جلسے جلوسوں تک محدود ہوکر رہ گئے۔ ہمیں رَبِ لَم یزل کا یہ احسان یاد ہی نہیں رہا ”بے شک اللہ نے مومنوں پر احسان فرمایا کہ اُن میں اُنہی میں سے ایک رسول بھیجا جو اُنہیں آیتیں پڑھ کر سناتاہے، اُنہیں پاک کرتا ہے اور اُنہیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے۔ یقیناََ (پہلے) یہ سب کھلی گمراہی میں تھے (العمران)”۔ بدقسمتی یہ کہ ہم نے جلسے جلوسوں اور ریلیوں میں حکمتِ دیں کی تلاش شروع کردی اور اپنی بے عملیوں میں اتنا آگے نکل گئے کہ عالم میں رسوا ہوکر رہ گئے۔ اِسی پر بس نہیں بلکہ ہم نے اپنی رسوائیوں کو بھی تقدیر کے کھاتے میں ڈال دیا۔ اب بقولِ اقبال ” خبر نہیں کیا ہے نام اِس کا ، خُدا فریبی کہ خود فریبی۔۔۔۔ عمل سے غافل ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ ”یہ اِنہی بے عملیوں کا شاخسانہ ہے کہ ہر جگہ خونِ مسلم کی ارزانی ہے۔
کشمیر کی بیٹی کے سر سے ردا چھِن چکی، بھارت کشمیرہڑپ کر چکا، اُس نے عملی طور پر کشمیر کو اپنے اندر ضم کر لیا اور ہم کشمیر کو پاکستان کے نقشے میں ضم کرکے مطمئن ہوچکے۔ فلسطین میں ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ عراق، شام، یمن، لیبیا اور افغانستان کا حشر سب کے سامنے لیکن مسلم اُمّہ پھر بھی باہم جوتم پیزار۔ ایسا کیوں ہو رہاہے، اِس کا جواب شیخ سعدی کی زبانی سنیے ”اِس گمان میں مت رہنا کہ راہِ اخلاص محمد مصطفٰےۖ کے اتباع کے بغیر طے ہو سکتی ہے۔ جو شخص رسول اللہۖ کے خلاف راستہ اختیار کرے گا، کبھی منزلِ مراد تک نہ پہنچ سکے گا”۔ حقیقت یہی کہ اُدھر ہم نے اتباعِ رسولۖ کو چھوڑا اِدھر اللہ نے ہمیں پوری دنیا میں رسوا کردیا۔ آج ہماری حبِ رسولۖ کا امتحان ہے جس سے ہمیں سرخ رو ہونا ہے۔ شیطانِ رجیم، بَدبخت ترین فرانسیسی صدرنے گستاخِ رسولۖ اُستاد کے قتل کے بعد گستاخانہ خاکوں کی برملا حمایت کرتے ہوئے اِسے آزادیٔ اظہار کا نام دیا۔پتہ نہیں یہ آزادیٔ اظہار اُس وقت کِس گٹر میں جا گرتی ہے جب ”ہولوکاسٹ” پر بات کرنے والوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا جاتاہے۔ حقیقت یہ کہ اہلِ مغرب کے لینے کے پیمانے اور ہیں اور دینے کے اور۔وجہ اُس کی یہ کہ مسلم اُمہ کمزور اور کمزوری کی وجہ باہمی اختلافات۔
گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر فرانس کے خلاف پورے عالمِ اسلام میں اشتعال اور قومِ مسلم کَٹ مرنے کو تیار مگر مسلم حکمران بے غیرتی کی ”بُکل” مارے ہوئے۔ چند اسلامی ممالک کے سربراہان نے احتجاج کیا بھی تو معذرت خواہانہ باقی مسلم اُمّہ کویہ توفیق بھی نہیں ہوئی۔ آفرین ہے ترکی کے صدر طیب اردوان پر جس نے دبنگ لہجے میں فرانسیسی صدر کو اُس کی اوقات یاد دلاتے ہوئے اُس کے دماغی معائنے کا مطالبہ کردیا جس سے ترکی اور فرانس کے مابین تناؤ پیدا ہوااور یورپی یونین کے ممالک جرمنی، اٹلی، ہالینڈ اور یونان فرانس کے صدر میکرون کی حمایت میں سامنے آگئے۔
فرانسیسی جریدے ”چارلی ہیبڈو” کے سرِورق پر طیب اردوان کا انتہائی توہین آمیز کارٹون بنایا گیا لیکن اُردوان اب بھی ڈَٹ کر کھڑے ہیں۔ تحریکِ انصاف سے لاکھ اختلاف کے باوجود گستاخانہ خاکوں پر وزیرِاعظم عمران خاں کے بیانات بھی لائقِ تحسین۔ اُنہوں نے اپنے خطوط میں عالمِ اسلام کے سربراہوں کی غیرت کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرتے ہوئے فرمایا ”کسی کو تکلیف پہنچانا آزادیٔ اظہار نہیں۔ خاکے بنانا سوا ارب مسلمانوں کو تکلیف پہنچاناہے۔ہم سکولوں میں ساتویں سے نویں کلاس تک سیرتِ طیبہ پڑھانے کا قانون لائیں گے۔ مغرب کے لوگوں کو نبی کریمۖ سے ہمارے رشتے کی سمجھ ہی نہیں ہے”۔ عرض ہے کہ محض فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ سے حبِ رسولۖ کے تقاضے ہرگز پورے نہیں ہوتے۔ فرانس سے سفارتی تعلقات منقطع ہونے چاہییں۔ ہمارے علمائے کرام نے اپنے خطبات میں گستاخانہ خاکوں کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے فرانس سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ بہتر ہوتا کہ اِس بار میلادالنبی کے جلوسوں اور ریلیوں میں صرف ایک ہی نعرہ گونجتا کہ فرانس سے سفارتی تعلقات ختم کیے جائیں۔