امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں فیصلہ ساز اور اہم افراد بھی امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخاباب میں اپنی اپنی پسند رکھتے ہیں لیکن 1980 کی طرح اب وہ حالات نہیں رہے جب پاکستان کی قدامت پسند سیاسی جماعتیں کھل کر رپبلکن صدارتی امیدواروں کی حمایت کیا کرتی تھیں۔
آج کے دور میں پاکستان کے سیاسی و سرکاری حلقے اس حوالے سے اپنی پسند چھپانے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔
سنہ 1980 اور 1990 کے ادوار میں، جب افغانستان سے سویت یونین کے انخلا کے بعد خطے میں نظریاتی لڑائی کی بنا پر پاکستان کا سیاسی ماحول بہت تناؤ کا شکار تھا، پاکستان کی دائیں بازو کی سیاسی قوتوں نے امریکی صدارتی انتخاب میں رپبلکن امیدواروں کی کُھل کر حمایت کی تھی۔
یہ وہ وقت تھا جب دائیں بازو کے کچھ اخبارات نے امریکی انتخاب میں سابق صدر جارج بش (سینیئر) کی بطور صدارتی امیدوار کھلم کھلا حمایت کی تھی۔
ایسا کرنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ رپبلکن پارٹی نے افغانستان کی جنگ میں افغان ’مجاہدین‘ کی کھلے دل سے مادی اور مالی حمایت کی تھی، لیکن اب وقت بدل گیا ہے۔ آج اسلام آباد میں کوئی ایسا شخص ملنا بھی محال ہے جو کھل کر عوام میں امریکی صدارتی امیداوروں میں سے کسی ایک کی حمایت کرے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستانیوں کو امریکی صدارتی دوڑ میں گہری دلچسپی نہیں رہی یا ان کی اس سلسلے میں کوئی پسند، ناپسند نہیں۔
اسلام آباد میں سرکاری ایوانوں میں موجود بابووں میں سے کچھ کا خیال ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسری مرتبہ منتخب ہو گئے تو یہ پاکستانی مفادات کے لیے بہتر ہو گا۔ سرکاری حلقوں میں موجود یہ طبقہ زیادہ تر حکمراں جماعت کے ارکان پر مشتمل ہے جو سمجھتے ہیں کہ گذشتہ دو سال کے دوران وزیراعظم عمران خان نے صدر ٹرمپ کے ساتھ خصوصی ربط و تعلق استوار کر لیا ہے اور اگر صدر ٹرمپ دوسری مرتبہ بھی صدر کے منصب پر جلوہ افروز ہو جائیں گے تو یہ تعلقات جاری رہیں گے۔
انگریزی روزنامہ ڈان کے اسلام آباد میں مدیر فہد حسین امریکی صدر کی حمایت کرنے والے پاکستانی سرکاری حلقوں میں موجود اس طبقے کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ واضح اشارے مل رہے ہیں کہ پاکستانی سرکاری حلقے چاہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ ہی دوبارہ صدارتی انتخاب جیتیں۔
فہد حسین کی رائے میں ’پاکستانی سرکاری حلقوں کی ترجیحات کے مطابق صدر ٹرمپ دوسری مرتبہ جیت جاتے ہیں تو مستقبل کے پاکستان امریکہ تعلقات کے بارے میں دو طرح کی پیش رفت ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔‘ وہ سمجھتے ہیں کہ گذشتہ دو سال کے دوران صدر ٹرمپ اور وزیراعظم عمران خان کے درمیان تعلقات میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے۔
دوسری پیش رفت یہ ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں امریکہ کو پاکستان نے جو سہولت کاری فراہم کی ہے، اس نے دونوں ممالک کے حکام کے درمیان عملی رابطوں کو تقویت دی ہے۔ انھیں پاکستان کی معاونت درکار تھی اور اس عمل میں پاکستان نے واشنگٹن میں حکام کے ساتھ قریبی رابطے بڑھا لیے ہیں۔ یہ ایک اور اشارہ ہے جس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ اگر ٹرمپ دوسری بار صدر بن گئے تو پاکستان اور امریکہ میں رابطوں کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
دوسری جانب مدِمقابل امریکی صدارتی امیدوار جو بائیڈن اس خطے سے نہ صرف بخوبی واقف ہیں بلکہ وہ افغانستان سے گہری شناسائی بھی رکھتے ہیں اور وہ افغان عمل میں شریک بھی رہے ہیں۔
فہد حسین کے تجزیے میں ’اگر بائیڈن کی کامیابی کو ذہن میں رکھتے ہوئے تجزیہ کیا جائے تو ان کے حکام و ماہرین پر انحصار کی پالیسی سے یہ کہنا آسان ہے کہ صدر بننے کے بعد ان کا طرز عمل کیا ہو گا۔ اس لحاظ سے وہ پاکستان کے لیے ایک بہتر آپشن ہوں گے۔ اگر ایسا ہوا تو ہمیں یہ ذہن میں رکھنا ہو گا کہ امریکی سرکار میں پاکستان کے بارے میں کوئی مثبت رائے موجود نہیں۔‘
پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ناک نقشہ سنوارنے والی اسٹیبلیشمنٹ کا پسندیدہ امیدوار کے طور پر امریکی صدارتی انتخاب میں زیادہ رجحان جو بائیڈن کی طرف ہے۔
نئی دہلی میں تین سال تک پاکستان کے سفیر کی خدمات انجام دینے والے معروف سفارتکار عبدالباسط تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستانی اسٹیبلیشمنٹ کا زیادہ رجحان جو بائیڈن کی طرف ہے اور امریکی صدارتی انتخاب میں وہ ان کی کامیابی چاہتی ہے، کیونکہ اسلام آباد کو توقع ہے کہ بائیڈن کے خیالات امریکی سکیورٹی اسٹیبلیشمنٹ کی سوچ کے قریب ہیں۔
بائیڈن کی کامیابی کا عملی طور پر یہ مطلب ہو گا کہ ہمارے خطے میں مسائل کا حقیقی ادراک کیا جائے گا جبکہ اس کے برعکس صدر ٹرمپ کے بارے میں یقین سے کچھ بھی کہہ پانا ممکن نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ دن بیت گئے جب امریکی صدارتی انتخابات میں اپنی پسند کے صدارتی امیدوار کے حق میں پاکستانی سرکار کھل کر اظہار کیا کرتی تھی۔ ’آج یہ وقت ہے کہ دونوں طرف کے لوگ بڑی حقیقت پسندی سے اپنے مفادات کا جائزہ لے رہے ہیں اور ان ہی کی روشنی میں آگے بڑھ رہے ہیں۔‘
پاکستانی سرکار کے اس مرتبہ بائیڈن کی طرف جھکاؤ کی وجہ یہ سوچ ہے کہ جو بائیڈن امریکی سکیورٹی اسٹیبلیشمنٹ کی سوچ کے زیادہ قریب تصور ہوتے ہیں، خاص طور پر افغانستان کے معاملے پر۔
عبدالباسط کہتے ہیں کہ ’ہم طالبان کے ساتھ امریکی بات چیت میں سہولت کاری کر رہے ہیں اور اس کے بدلے ہمیں توقع ہے کہ وہ انڈیا پر زور دیں گے کہ ہمارے لیے بلوچستان اور افغانستان کے ساتھ دیگر سرحدی علاقوں میں مسائل پیدا نہ کرے۔ ہمیں توقع ہے کہ امریکہ ہمیں ایف اے ٹی ایف کے معاملے میں بھی بچا لے گا۔ ہم یقینی طور پر اس معاملے میں واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔‘
ڈونلڈ ٹرمپ اس پہلو پر بھی کام کر رہے ہیں کہ دوسری مرتبہ صدرِ امریکہ منتخب ہونے کے بعد امریکہ اور دنیا میں وہ کیا کامیابیاں چھوڑ کر جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ واشنگٹن اسلام آباد پر یہ دباؤ ڈالے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ ٹرمپ انڈیا کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کے لیے پاکستان کو دام میں لائیں۔ یہ جنوبی ایشیا میں ان کی کامیابی تصور ہو گی۔ جہاں تک انڈیا سے قربت کا تعلق ہے تو جو بائیڈن وہ شخص تھے جنھوں نے امریکہ اور انڈیا میں جوہری معاہدہ کرانے کے لیے لابی کی تھی۔ اُس وقت وہ سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے سربراہ تھے۔
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر جلیل عباس جیلانی اس امر کی تائید کرتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ صدر منتخب ہونے سے پاکستان امریکہ تعلقات کا سلسلہ آگے بڑھے گا۔ اس پرانی خارجہ پالیسی کی توثیق کرتے ہوئے ان کی رائے میں گذشتہ دو سال کے دوران پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ ’انتخاب ٹرمپ جیتیں یا جو بائیڈن، اس سے قطع نظر پاکستان اورامریکہ میں تعلقات آگے بڑھیں گے۔‘
جلیل عباس جیلانی کے مطابق ’بائیدن جیتے تو یہ حکومت پاکستان کی پروفیشنل خارجہ پالیسی پر منحصر ہو گا کہ وہ سکیورٹی ماہرین کے ساتھ کچھ ایسا کر دکھائے جس کے نتیجے میں بائیڈن کی مستقبل میں ہمارے متعلق پالیسی سے متعلق کچھ کہنا ممکن ہو پائے۔‘
جلیل عباس جیلانی نے امید ظاہر کی کہ امریکی صدارتی انتخاب کے بعد پاکستان خطے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ ان کا استدلال ہے کہ ’ہم سنہ 1971 کے بعد امریکہ اور چین کو قریب لائے۔ اگر سلامتی کی صورتحال زیادہ بگڑی تو ہم ایک بار پھر ان تعلقات کو معمول پر لانے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔‘
’ایران امریکہ تعلقات ایک اور مسئلہ ہے جو گذشتہ دو سال کے دوران بہت زیادہ خرابی سے دوچار ہے۔ ایران امریکہ سفارتی تعلقات نہ ہونے کے سبب واشنگٹن میں ہمارا سفارتخانہ امریکہ میں ایرانی مفادات کو بھی دیکھ رہا ہے۔ شاید ان دو حریف ممالک کو ایک ایسے مقام تک قریب لانے میں ہم کوئی کردار ادا کر سکیں جہاں وہ اپنے اختلافات کو حل کر سکیں۔‘