کورونا وائرس: جرمنی میں دوبارہ جزوی لاک ڈاؤن کا آغاز

 Germany lockdown

Germany lockdown

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) کورونا وائرس کی بڑھتی وبا کے پیش نظر جرمنی میں آج سے دوبارہ جزوی لاک ڈاؤن کا آغاز ہو گیا ہے جبکہ جرمن وزیر صحت نے اس وبا سے نمٹنے میں قومی سطح پر کوششیں کرنے کی تاکید کی ہے۔

جرمنی میں کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے پیر دو نومبر سے جزوی طور پر بندشوں کا آغاز ہوگیا ہے۔ یہ بندشیں آئندہ ایک ماہ تک کے لیے ہیں۔ ملک میں اب تک اس وبا سے پانچ لاکھ افراد متاثر ہوچکے ہیں۔ حالیہ کچھ ہفتوں کے دوران یورپ کے دیگر ملکوں کی طرح جرمنی میں بھی کووڈ 19 کے کیسز میں بہت تیزی سے اضافہ درج کیا گیا اور اسی کے پیش نظر ملک کی سربراہ چانسلر انگیلا میرکل نے معمولات زندگی پر جزوی بندشیں عائد کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔

اس جزوی لاک ڈاؤن کے دوران دوکانیں اور اسکول کھلے رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، گرجا گھروں میں بھی تمام احتیاطی تدابیر کے ساتھ عبادت کا عمل جاری رہیگا جبکہ احتجاجی مظاہروں پر بھی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے۔ بعض حلقوں کے مطابق یہ بندشیں اس برس موسم بہار میں نافذ کیے گئے پہلے سخت لاک ڈاؤن کا ہی ایک ہلکا روپ ہے۔

لیکن حکام نے اس جزوی لاک ڈاؤن کے تحت تمام ریستوراں اور بار بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عوامی سطح پر ملاقاتوں کو صرف دو خاندانوں کے درمیان محدود کر دیا گیا ہے جبکہ سوئمنگ پولز اور جم بند رہیں گے۔ صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے مرکزی اور ریاستی سطح کے رہنما 10 روز بعد دوبارہ ملاقات کریں گے جس میں انفیکشن کی شرح کا جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ کیا جائیگا آیا ان بندشوں کو مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے یہ پھر ماہ دسمبر سے ان میں کچھ نرمی کی جائے۔

اس دوران جرمن وزیر صحت جینز اسپاہن نے سرکاری نشریاتی ادارے زیڈ ڈی ایف سے بات چیت میں کہا کہ ملک کی موجودہ صورت حال کے مد نظر ”نومبر میں قومی کوششوں ” کی ضرورت ہے اور عوام کو چاہیے کہ وہ اس وبا پر قابو پانے کے مقصد سے جتنا ممکن ہوسکے عوامی روابط سے گریز کریں۔

اس دوران عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہا نوم گیبریئس نے چند روز تک اپنے آپ کو تن تنہا رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے یہ فیصلہ ایک ایسے شخض سے قریبی رابطے میں آنے کے بعد کیا جو کورونا وائرس سے پوزیٹیو پائے گئے ہیں۔

اسے سے متعلق مسٹر گیبریئس نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ”مجھے ایک ایسے شخض کے رابطے میں آنے کی شناخت ہوئی ہے جو کووڈ 19 سے پوزیٹیو پائے گئے ہیں۔ میری صحت اچھی ہے اور مجھ میں ابھی تک کوئی علامت بھی نہیں ہے۔ لیکن عالمی ادارہ صحت کے اصول و ضوابط کے مطابق میں آئندہ چند روز کے لیے اپنے آپ کو قرنطینہ میں رکھوں گا اور گھر سے ہی کام کروں گا۔”

حالیہ کچھ ہفتوں سے یورپ میں کووڈ 19 کی وبا میں دوبارہ تیزی دیکھی گئی۔ اطلاعات کے مطابق برطانیہ کے شہزادہ ولیم بھی گزشتہ اپریل میں کورونا وائرس سے متاثر ہوگئے تھے لیکن لوگوں میں خوف و ہراس پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر انہوں نے اس بات کا اعلان کرنے کے بجائے اسے صیغہ راز میں رکھا۔ برطانوی اخبار دی سن اور بی بی سی کے مطابق کووڈ 19 کی وجہ سے انہیں سانس لینے میں کافی مشکلیں پیش آرہی تھیں۔ ان میں اس وبا کی تشخیص انہیں دنوں میں ہوئی تھی جب ان کے والد شہزادہ چارلس کووڈ 19 سے پوزیٹیو پائے گئے تھے۔

ادھر سلوواکیہ میں کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ شروع کی گئی ہے جس کے تحت اب تک لاکھوں افراد کا ٹیسٹ کیا جا چکا ہے۔ ملک کے وزیر دفاع کے مطابق اواخر ہفتہ ملکی سطح پر تقریبا 25 لاکھ افراد کا ٹیسٹ کیا گیا جس میں سے 25 ہزار سے بھی زائد افراد اس وبا سے متاثر پائے گئے جنہیں قرنطینہ کرنے کو کہا گیا ہے۔

ٹیسٹنگ کا یہ عمل رضاکارنہ اور مفت تھا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ جو افراد اس ٹیسٹ میں حصہ نہیں لیں گے ان پر کام پر نہ جانے دینے سمیت مختلف طرح کی بندشیں عائد کی جا سکتی ہیں۔

کورونا وائرس کی وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک امریکا ہے جہاں نوے لاکھ سے بھی زائد افراد اس سے متاثر ہوچکے ہیں۔ تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس وبا پر قابو پانے کے لیے جن یورپی ممالک نے لاک ڈاؤن نافذ کیا ہے ان پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ مشیگن میں اپنی ایک انتخابی ریلی میں انہوں نے اسے سخت و سیاہ لاک ڈاؤن سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہا اگر ان کے حریف جو بائیڈن اقتدار میں آئے تو وہ بھی اسی کی نقل کرتے ہوئے ایسے ہی سخت اقدامات کریں گے۔