نیس (اصل میڈیا ڈیسک) فرانس کے شہر نیس میں چاقو سے کیے جانے والے حملے کے سلسلے میں جن تین مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گيا تھا انہیں رہا کر دیا گيا ہے۔ دریں اثنا، مقامی لوگ سخت سکیورٹی میں پھر سے عبادت کے لیے چرچ میں جمع ہوئے۔
فرانس کی پولیس نے پوچھ گچھ کے بعد ان تین مشتبہ افراد کو رہا کردیا ہے جو نیس شہر کے ایک چرچ میں چاقو کے حملے میں ملوث ہونے کے شبہے میں حراست میں لیے گئے تھے۔ حکام نے اس حملے کو اسلام کے انتہا پسندانہ حملے سے تعبیر کیا تھا۔ اس حملے میں چرچ کے ایک گارڈ اور دو خواتین سمیت تین افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
فرانس کے خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ نے عدالتی ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ حکام کو تفتیش کے بعد جب پوری طرح سے یقین ہوگیا کہ حراست میں لیے گئے افراد کا حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے تو انہیں اتوار یکم نومبر کو رہا کر دیا گیا۔ جن تین مشتبہ مردوں کو حراست میں لیا گیا تھا ان کی عمر 47، 35 اور 33 بتائی گئی ہے۔
چرچ پر حملے کا الزام 21 سالہ تیونس کے شہری براہیم عیسوئی پر ہے۔ براہیم حملے کے دوران پولیس کی فائرنگ میں شدید طور پر زخمی ہوگئے تھے جن کا ہسپتال میں علاج چل رہا ہے۔ اس کے علاوہ تین دیگر افراد ابھی بھی حراست میں ہیں جن میں سے ایک پر اس بات کا شبہہ ہے کہ وہ مشتبہ حملہ آور براہیم کے ساتھ ہی مہاجرت کر کے فرانس پہنچے تھے۔
عام خیال یہ ہے کہ نیس شہر میں چرچ کے اندر حملہ پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکوں کی طنزیہ فرانسیسی جریدے شارلی ایبدو میں دوبارہ اشاعت کے رد عمل کیا گیا تھا۔ حکام نے اسے ایک دہشت گردانہ حملہ قرار دیا ہے جو شہر کے نوٹرے ڈیم چرچ کے پاس جمعرات کو پیش آیا تھا۔ خاکوں کی اشاعت ماہ ستمبر میں ہوئی تھی تاہم اس ضمن میں اکتوبر میں سب سے پہلے اس استاد کو قتل کرنے کا واقعہ پیش آیا جس نے اپنے شاگروں کو یہ متنازعہ خاکے دکھائے تھے۔
تاریخ اور جغرافعہ کے استاد کے قتل کا واقعہ جمعہ 16 اکتوبر کو پیرس کے نواحی قصبے کنفلان سینٹ اونورین میں مقامی وقت کے مطابق شام کو پیش آیا تھا۔ اس استاد کو قتل کرنے کے بعد اس کا سر تن سے الگ کر دیا گیا تھا۔اس واقعے کے بعد جب پولیس وہاں پہنچی تو مبینہ حملہ آور بھی وہیں قریبی علاقے میں ہی مل گیا۔ پولیس حکام کے مطابق گرفتاری کی کوشش کے دوران حملہ آور نے پولیس کو بھی دھمکانے کی کوشش کی اور اسی دوران وہ پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہو گیا۔
فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں نے اظہار رائے کی آزادی کے تحفظ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایسے خاکوں کی اشاعت کا حق ہے اور وہ ملک میں کبھی بھی اس پر پابندی نہیں لگائیں گے۔ انہوں نے استاد کے قتل کے اس واقعے کو ”مسلم دہشت گردانہ حملہ” قرار دیا تھا۔ انہیں بیانات کے بعد مسلم دنیا میں ان کے خلاف غم و غصے کی لہر پھیل گئی اور ان کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے۔
اتوار کے روز ہی چرچ پر ہونے والے حملے میں مارے گئے افراد کی بھی آخری رسومات ادا کر دی گئیں۔اس موقع پر حملے کے بعد پہلی بار اس چرچ میں بڑی تعداد میں لوگ پھر جمع ہوئے اور اجتماعی طور پر عبادت کی۔ چرچ کے آس پاس سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں اور سینکڑوں لوگ سکیورٹی چیک کے پیچھے کھڑے ہوکر اس اجتماعی دعائیہ تقریب میں شرکت کی۔ حکام نے شہر کے گرجا گھروں کے تحفظ کے لیے بڑی تعداد پولیس اہلکاروں اور فوج کو کو تعینات کیا ہے۔