امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) سابق صدر اوباما عالمی تنازعات کے حل میں سفارت کاری اور دیگر ملکوں کو ساتھ لے کر چلنے کے قائل تھے۔ لیکن صدر ٹرمپ نے یک طرفہ فیصلوں کو ترجیح دی، جس سے بین الاقوامی سطح پر تعاون اور امریکی ساکھ دونوں کو نقصان پہنچا۔
سابق صدر اوباما اور یورپی ممالک کو ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق معاہدے پر اتفاق کرنے میں برسوں لگے۔ لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب اور اسرائیل کے اعتراضات کے باعث امریکا کو یک طرفہ طور پر ہی اس سمجھوتے سے علیحدہ کر دیا۔
ڈیموکریٹ صدر کے دور میں امریکا نے کرہ ارض کی بقا اور ماحولیاتی تحفظ سے متعلق پیرس سمجھوتے پر دستخط کیے۔ صدر ٹرمپ نے امریکی کمپنیوں سے اپنے انتخابی وعدوں کے مطابق اقتدار میں آنے کے بعد اس تاریخی معاہدے سے امریکا کو الگ کر دینے کے احکامات جاری کر دیے۔
چار سال پہلے صدر ٹرمپ نے امریکیوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ افغانستان میں جنگ ختم کر کے امریکی افواج کو وہاں سے نکال لیں گے۔ اس سال فروری میں ان کی حکومت نے قطر میں طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کر بھی لیا لیکن افغانستان میں امن کا دور دور تک کوئی نام و نشان ہی نہیں۔
اس معاہدے کو امریکا کی کمزوری اور مجبوری کے طور پر دیکھا گیا۔ صدر ٹرمپ کی خواہش ہے کہ اگر طالبان اور افغان حکومت کے درمیان معاملات طے پا جائیں، تو اس سال کرسمس سے پہلے افغانستان سے بیشتر امریکی فوجی واپس بلائے جا سکتے ہیں، لیکن اس کا امکان فی الحال کم نظر آتا ہے۔
شام میں صدر ٹرمپ نے پچھلے سال اکتوبر میں کردوں کی حفاظت پر مامور امریکی فوجی نکالنے کا حکم دے دیا۔ ان کے اس فیصلے کے بعد وہاں ترکی کو مزید جگہ ملی اور روس کا اثر پھیل گیا۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر جو بائیڈن الیکشن جیت جاتے ہیں تو صدر ٹرمپ کی نسبت ان کی روس سے متعلق پالیسی زیادہ سخت ہو سکتی ہے۔
مشرق وسطیٰ میں صدر ٹرمپ باراک اوباما اور ماضی کے دیگر امریکی صدور کے برعکس کھل کر اسرائیل کے حامی کے طور پر سامنے آئے۔ انہوں نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا اور امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا۔
انہوں نے خطے میں اسرائیل کی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے عرب ممالک کو اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کی ترغیب دی، جس کے نتیجے میں اس سال متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان نے اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ روابط قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ امریکی حکام کے مطابق سعودی عرب بھی جلد ہی ایسا ایک اعلان کرے گا۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق صدر ٹرمپ کے ان اقدامات نے فلسطینی اسرائیل تنازعے سے متعلق برسوں کی امریکی پالیسی کو لپیٹ دیا اور قیام امن کی کوششوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
تاہم مبصرین کی نظر میں اس بار اگر ٹرمپ کے بجائے ڈیموکریٹ امیدوار بائیڈن الیکشن جیت بھی جاتے ہیں، تو اس بات کا امکان کم ہے کہ وہ ٹرمپ کے ان یک طرفہ اور متنازعہ اقدامات کا رخ موڑنے کرنے کی کوشش کریں گے۔
صدر ٹرمپ کا شمار اقوام متحدہ کے بڑے ناقدین میں ہوتا ہے۔ انہوں نے پہلے امریکا کو اس عالمی ادارے کی انسانی حقوق کی کمیٹی سے الگ کیا۔ پھر تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے یونیسیف سے بھی امریکا کو نکال لیا۔ اس سال جب دنیا میں کورونا کی وبا اپنے عروج پر تھی، انہوں نے ڈبلیو ایچ او پر بھی الزامات لگاتے ہوئے اس عالمی ادارے کی فنڈنگ روکنے کا اعلان کر دیا۔
صدر ٹرمپ نے عالمی تجارتی تنظیم ڈبلیو ٹی او کی فنڈنگ بھی کم کر دی۔ انہوں نے نیٹو اتحاد چھوڑنے کی دھمکی بھی دی اور دوست ممالک پر بارہا تنقید کی کہ وہ فوجی اخراجات کے لیے امریکا پر انحصار کرنے کے بجائے اپنی فنڈنگ بڑھائیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے یورپ میں امریکا کے روایتی حلیف جرمنی کو خاص تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے باعث امریکا اور یورپی یونین کے تعلقات میں سرد مہری آئی۔
صدر ٹرمپ نے چین کے ساتھ تجارتی اختلافات پر کئی یک طرفہ اقدامات کیے اور چینی برآمدات پر نئے ٹیکس اور محصولات عائد کر دیے۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی لڑائی کا اثر دنیا کی دیگر منڈیوں پر بھی پڑا اور عالمی معیشت سست روی کا شکار ہوئی۔
دو طرفہ تعلقات کے تناظر میں ٹرمپ نے بعض ملکوں کے ساتھ نئی شروعات کے دعوے کیے لیکن انہیں بظاہر کوئی خاص کامیابی نہ مل سکی۔ انہوں نے شمالی کوریا کے رہنما کا پہلے مذاق اڑایا اور کم جونگ اُن کو ‘لٹل راکٹ مین‘ کہہ کر بھی پکارا۔
بعد میں انہوں نے شمالی کوریا کے رہنما کے ساتھ ملاقات کی اور نئی تاریخ رقم کرنے کا عندیہ دیا۔ تاہم تین مختلف ملاقاتوں کے بعد بھی شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان عسکری کشیدگی کم کرنے میں کوئی خاص پیش رفت نہ ہو سکی۔