بھارت میں دو ملزمان نے ایک ڈاکٹر کو شیشے میں اتار کر اسے سات ملین روپے کے عوض ’الہ دین کا ایک جعلی چراغ‘ بیچ دیا۔ چراغ کا خریدار یہ معاملہ اس وقت پولیس کے پاس لے گیا، جب اس چراغ کو رگڑنے پر کوئی جن برآمد نہ ہوا۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے اتوار یکم نومبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ان دونوں ملزمان نے شمالی ریاست اتر پردیش میں بظاہر ایک سادہ لوح ڈاکٹر کو 93 ہزار امریکی ڈالر کے برابر قیمت کے عوض الہ دین کا جو چراغ بیچا، اس کے اصلی ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے انہوں نے خریدار کو ایک ایسا مبینہ جن بھی دکھایا تھا جو، ملزمان کے دعووں کے مطابق، اس چراغ کو رگڑنے سے اس میں سے نکلا تھا اور جو اس جادوئی چراغ کے مالک کی ہر خواہش پوری کر سکتا تھا۔
اس نام نہاد جادوئی چراغ کا نیا مالک اس وقت بہت پریشان ہوا، جب اس نے اس پرانے سے دھاتی چراغ کو رگڑا تو بہت مگر اس میں سے کوئی جن اس لیے برآمد نہ ہوا کہ اس میں کچھ تھا ہی نہیں۔
اس پر اس بھارتی مسلم ڈاکٹر نے، جس کا نام لئیق خان بتایا گیا ہے، پولیس سے رابطہ کیا تو چند روزہ تفتیش کے بعد پولیس نے چراغ بیچنے والے دونوں دھوکے بازوں کو گرفتار کر لیا۔
اس بارے میں اتر پردیش پولیس کے ایک اعلیٰ اہلکار امیت رائے نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ”ان دونوں ملزمان نے اس ڈاکٹر کو یہ جادو کا چراغ بہت زیادہ قیمت پر فروخت کرنا چاہا تھا، مگر بالآخر سودا تقریباﹰ سات ملین روپے میں طے پا گیا تھا۔‘‘
امیت رائے نے بتایا کہ دونوں ملزمان کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جا چکا ہے اور وہ اس وقت پولیس کی تفتیشی تحویل میں ہیں۔ ان ملزمان نے ڈاکٹر لئیق خان کو یہ چراغ ایک ملزم کی بیوی کی عملی مدد سے بیچا تھا، جس نے شاید خریدار کو قائل کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ 70 لاکھ روپے کے عوض بس جادو کا یہ چراغ خرید ہی لے۔ یہ خاتون ابھی تک مفرور ہے لیکن پولیس اس کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق لئیق خان نے پولیس کو رپورٹ گزشتہ اتوار کے روز درج کرائی تھی اور دونوں ملزمان کو جعمرات کے روز گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ان میں سے جس ملزم نے ‘الہ دین کے لیمپ‘ کے خریدار کو بظاہر اسی چراغ سے نکلا ہوا ایک جن دکھایا تھا، جو خود کو مافوق الفطرت صلاحیتوں کا مالک قرار دے رہا تھا۔
مدعی کی طرف سے پولیس کو دیے گئے بیان کے مطابق دونوں ملزمان سے یہ چراغ خریدنے سے قبل اس نے ان سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ وہ جن کو چھونا چاہتا تھا اور چراغ کو تجرباتی طور پر اپنے ساتھ گھر بھی لے جانا چاہتا ہے۔
تاہم ملزمان نے یہ کہہ کر ڈاکٹر لئیق خان کی یہ خواہش مسترد کر دی تھی کہ خریدے جانے سے قبل ‘جن کو چھونے یا چراغ گھر لے جانے سے چراغ اور جن دونوں کو نقصان پہنچ سکتا تھا‘۔ لئیق خان کے مطابق، ”مجھے بعد میں احساس ہوا تھا کہ خریدے جانے سے قبل مجھے چراغ سے نکلا ہوا جو ‘جن‘ دکھایا گیا تھا، وہ دراصل دونوں ملزمان میں سے ایک تھا، جس نے جن کا روپ دھار رکھا تھا اور اسی لیے مجھے اسے چھونے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔‘‘
اتر پردیش پولیس کے مطابق یہ دونوں ملزمان اس واقعے سے پہلے بھی بھارت کی اسی ریاست میں چند دیگر خاندانوں کو بھی بے وقوف بنا کر بہت بڑی بڑی رقوم بٹور چکے تھے۔ ملزمان نے ہر بار کسی نہ کسی پرانے سے دھاتی لیمپ کو الہ دین کا وہ طلسماتی چراغ بنا کر بیچا جو، ماضی کے من گھڑت لیکن عوامی سطح پر پسند کیے جانے والے قصے کہانیوں کے مطابق، اپنے اندر سے نکلنے والے ‘جن‘ کی مدد سے اپنے مالک کی صحت اور دولت جیسے شعبوں سمیت ہر قسم کی خواہشیں پوری کر سکتا تھا۔