ویانا حملے میں مارا گیا دہشت گرد شام گیا تھا، سزا یافتہ تھا

Vienna Attacks

Vienna Attacks

ویانا (اصل میڈیا ڈیسک) آسٹرین دارالحکومت ویانا میں کل رات ایک دہشت گردانہ حملے میں مارا جانے والا حملہ آور دہشت گرد تنظیم داعش میں شمولیت کے لیے شام گیا تھا اور سزا یافتہ بھی تھا۔ اس حملے میں مجموعی طور پر پانچ افراد ہلاک اور سترہ زخمی ہوئے۔

آسٹریا کے دارالحکومت سے منگل تین نومبر کو ملنے والی رپورٹوں میں ملکی وزیر داخلہ کارل نیہامر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پیر کی رات خونریز حملے کے دوران جو حملہ آور پولیس کے ہاتھوں مارا گیا، وہ شدت پسند تنظیم ‘اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش میں شمولیت کے لیے شام بھی گیا تھا۔

اس جرم میں اسے اپریل 2019ء میں 22 ماہ قید کی سزا بھی سنائی گئی تھی۔ کارل نیہامر نے آسٹرین نیوز ایجنسی اے پی اے کو بتایا کہ اس مشتبہ دہشت گرد کو گزشتہ برس دسمبر کے اوائل میں پیرول پر رہا کر دیا گیا تھا۔

وزیر داخلہ کارل نیہامر کے مطابق اس حملہ آور کی عمر 20 سال تھی اور وہ آسٹریا اور شمالی مقدونیہ کی دوہری شہریت رکھتا تھا۔ نیہامر کے بقول یہ شدت پسند واضح طور پر دہشت گرد تنظیم داعش کا ہمدرد اور ہم خیال تھا اور ماضی میں اس تنظیم میں شامل ہو کر اس کی طرف سے لڑنا بھی چاہتا تھا۔

حکام نے اس حملے سے متعلق وسیع پیمانے پر جاری چھان بین کو ناکامی سے بچانے کے لیے مارے گئے حملہ آور کا نام ظاہر نہیں کیا۔ یہ حملہ اس وقت کیا گیا، جب آسٹریا میں کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے جزوی لاک ڈاؤن شروع ہونے میں چند گھنٹے باقی رہ گئے تھے۔

ویانا میں حکام اس حملے کو ابتدائی تفتیشی نتائج اور مارے جانے والے حملہ آور کے ذاتی پس منظر اور ریکارڈ کے باعث واضح طور پر ایک دہشت گردانہ حملہ قرار دے رہے ہیں۔ سرکاری بیانات کے مطابق پیر دو نومبر کی رات ویانا میں یہودیوں کی ایک عبادت گاہ کے قریب کیے گئے اس حملے میں حملہ آور کے علاوہ چار افراد مارے گئے جبکہ 17 زخمی ہوئے۔ ویانا پولیس کے سربراہ نے بتایا کہ مارا جانے والے حملہ آور پولیس کی فائرنگ سے رات آٹھ بج کر نو منٹ پر ہلاک ہوا۔

وفاقی وزیر داخلہ نیہامر نے بتایا، ”مرنے والوں میں دو خواتین تھیں اور دو مرد۔‘‘ اس شوٹنگ کے باعث جو تقریباﹰ ڈیڑھ درجن افراد زخمی ہوئے، طبی ذرائع کے مطابق ان میں سے سات کی حالت تشویش ناک ہے۔ ویانا ہسپتال سروس نے بتایا کہ باقی دس زخمیوں میں سے کسی کی جان خطرہ میں نہیں۔ زخمیوں میں ایک 28 سالہ پولیس افسر بھی شامل ہے، جس کی زندگی اب خطرے میں نہیں ہے۔

ویانا شہر کے اندرونی حصے میں پیر کی شام آٹھ بجے سے کچھ ہی دیر بعد شروع ہونے والے اس خونریز حملے میں حکام کا خیال ہے کہ حملہ آوروں کی تعداد دو یا اس سے بھی زیادہ تھی۔ اسی لیے مارے جانے والے شدت پسند کے ممکنہ ساتھیوں کی تلاش کے لیے مسلسل چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

ملکی پولیس نے بتایا کہ آج منگل کی صبح تک مجموعی طور پر پندرہ گھروں کی تلاشی لی گئی، جس دوران متعدد ایسے افراد کو حراست میں بھی لے لیا گیا، جو ابتدائی تفتیش کے مطابق مارے جانے والے حملہ آور کے ساتھ رابطے میں تھے۔

دنیا بھر میں دہشت گردی سے متاثر ممالک میں افغانستان اس برس سر فہرست رہا۔ سن 2018 کے دوران افغانستان میں 1443 دہشت گردانہ واقعات ہوئے جن میں 7379 افراد ہلاک اور ساڑھے چھ ہزار افراد زخمی ہوئے۔ 83 فیصد ہلاکتیں طالبان کے کیے گئے حملوں کے سبب ہوئیں۔ طالبان نے پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا۔ داعش خراسان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.60 رہا۔

آسٹرین چانسلر سباستیان کُرس کے مطابق، ”ہم اپنے ملک کے وفاقی دارالحکومت میں ایک قابل مذمت دہشت گردانہ حملے کا شکار ہوئے ہیں۔‘‘ وفاقی حکومت نے آج منگل کے روز ملک میں تین روزہ قومی سوگ کا اعلان بھی کر دیا، جس دوران جمعرات کی رات تک تمام سرکاری اور عوامی عمارات پر قومی پرچم سرنگوں رہے گا۔

اس حملے میں ہلاک شدگان کے لواحقین کے ساتھ یکجہتی اور زخمیوں کے اہل خانہ کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لیے آج منگل کی دوپہر پورے ملک میں ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی گئی۔