برلن (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن پارلیمان کے اسپیکر شوئبلے نے کہا ہے کہ شدت پسند مسلمانوں کی دہشت گردی کا ہدف ’ہمارا طرز زندگی‘ ہے۔ ویانا میں دہشت گردانہ حملے کے تناظر میں انہوں نے کہا کہ مغربی دنیا کو اس انتہا پسندی کا مل کر مقابلہ کرنا ہو گا۔
برلن میں بنڈس ٹاگ کہلانے والے جرمن ایوان زیریں کے ایک اجلاس کے آغاز پر اسپیکر وولفگانگ شوئبلے نے کہا کہ ویانا میں پیر دو نومبر کی رات کیے گئے دہشت گردانہ حملے کے ساتھ ایک بار پھر مغربی دنیا کے طرز زندگی پر حملے کی کوشش کی گئی ہے۔
انہوں نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا، ”ایک بار پھر مغرب کے آزاد اور کھلے پن کے مظہر معاشروں میں سے ایک کو انتہا پسندی اور نفرت کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس دہشت گردی کو مغربی ممالک کی برادری کو مل کر اور فیصلہ کن انداز میں ناکام بنانا ہو گا۔‘‘
ویانا میں حالیہ دہشت گردانہ حملے میں چار افراد ہلاک اور سترہ زخمی ہو گئے تھے۔ ایک بیس سالہ حملہ آور بھی، جو آسٹریا اور شمالی مقدونیہ کا دوہرا شہری تھا، پولیس کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔
اس کے ساتھیوں کو پولیس تلاش کر رہی ہے۔ اب تک متعدد مشتبہ افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ اس حملے کے بعد آسٹرین چانسلر کُرس نے کہا تھا کہ یہ خونریز حملہ ’تہذیب اور بربریت کے مابین جنگ‘ کی نشان دہی کرتا ہے۔
یہ حملہ آور دہشت گرد تنظیم ‘اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کا حامی تھا، جو ماضی میں داعش کی صفوں میں شمولیت کے لیے شام بھی گیا تھا اور اسی وجہ سے اسے آسٹریا کی ایک عدالت نے 22 ماہ قید کی سزا بھی سنائی تھی۔
وولفگانگ شوئبلے نے ویانا حملے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے لواحقین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا، ”خود کو اسلام پسند قرار دینے والے انتہا پسندوں کی طرف سے یہ دہشت گردی اپنے متاثرین میں کوئی تفریق نہیں کرتی۔ لیکن اس کا نشانہ ایک ہی ہے: عقیدے کی آزادی، کسی بھی عقیدے پر عمل نہ کرنے کی بھی آزادی اور ہمارا وہ طرز زندگی جو کھلے معاشرے کی پہچان ہے۔‘‘
وولفگانگ شوئبلے کے مطابق، ”بات چاہے ویانا میں حالیہ حملے کی ہو، یا اس سے قبل پیرس اور نیس میں کیے گئے خونریز حملوں کی، نشانہ آزاد معاشروں کی ہماری انہی اقدار کو بنایا جاتا ہے، جو ہم سب کو متحد کرتی ہیں اور جن میں ہر بات کی کھل کر وضاحت اور باہمی برداشت کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔‘‘
بنڈس ٹاگ کے اسپیکر نے مطالبہ کیا کہ ویانا میں دہشت گردانہ حملے کے پس منظر کی جامع اور تیز رفتار چھان بین کی جانا چاہیے اور ساتھ ہی ‘دہشت گردی کے ان ڈھانچوں کی بھی، جن کے تانے بانے جرمنی تک کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔‘‘
شوئبلے کے الفاظ میں، ”مغربی دنیا میں آزادی اور کھلے پن کی سماجی اقدار کی حفاظت کے لیے یورپ اور امریکا کو بھی آپس میں اب تک کے مقابلے میں زیادہ قریبی اشتراک عمل کرنا ہو گا۔‘‘