امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلسل تنقید کا نشانہ بننے والی مسلم خواتین ڈیموکریٹ رکن راشدہ طبیب اور الہان عمر، ریپبلیکن امیدواروں کو شکست دے کر ایک بار پھر امریکی کانگریس کے لیے منتخب ہو گئی ہیں۔
خواتین اور تارکین وطن کے حقوق، موسمیاتی تبدیلیوں اور طبی سہولیات کے لیے آواز بلند کرنے والی امریکی کانگریس کی رکن راشدہ طلیب اور الہان عمر کے ساتھ ان کی دو اور ہم نوا الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز اور ایانا پیریسلے بھی ریپبلیکن امیدواروں کو شکست دے کر امریکی کانگریس کے لیے دوبارہ منتخب ہوگئی ہیں۔ یہ چاروں خواتین’اسکواڈ‘ گروپ کے نام سے مشہور ہیں۔
راشدہ طلیب اور الہان عمر کو اس وقت امریکی کانگریس کی پہلی مسلم خواتین رکن بننے کا اعزاز حاصل ہوا تھا جب وہ 2018 میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار کے طور پر کامیاب ہوئی تھیں۔ راشدہ طلیب میشی گن سے اور الہان عمر مینیسوٹا سے کامیاب ہوئی ہیں جبکہ الیگزنڈریا اوکاسیو نیویارک سے اور ایانا پیریسلے میساچیوسٹس سے منتخب ہوئی ہیں۔
الہان عمر نے اپنی کامیابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا”ہماری بہنوں کا اتحاد مضبوط ہے۔” دیگر تینوں خواتین نے بھی ٹویٹ کر کے اپنی کامیاب پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے لوگوں کا شکریہ ادا کیا ہے۔
الگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز نے ووٹروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا”کانگریس میں محنت کش طبقے کے لوگوں کے حقوق کے لیے لڑنا میرے لیے باعثِ اعزاز رہا ہے اور یہ میری ذمہ داری ہے۔”
آیانا پریسلی نے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”ہم نے اپنی مشترکہ انسانیت اور اقدار کے لیے متحد ہو کر جدو جہد کی ہے۔”
ان چاروں خواتین کے گرو پ کو ‘دی اسکواڈ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ان چاروں میں سے تین امریکا میں پیدا ہوئی تھیں جب کہ الہان کی پیدائش صومالیہ میں ہوئی تھی۔
راشدہ طلیب کے والدین فلسطینی پناہ گزین کے طورپر امریکا آئے تھے، جہاں ڈیٹروئٹ میں راشدہ پیدا ہوئیں۔ انہوں نے قانون کی ڈگری حاصل کی ہے۔ وہ امریکی کانگریس کے لیے منتخب ہونے والی پہلی فلسطینی نژاد خاتون ہیں۔
الہان عمر صومالیہ میں پیدا ہوئیں اور کم عمری میں ہی ایک پناہ گزین کے طور پرامریکا چلی آئی تھیں۔ وہ کانگریس کے لیے منتخب ہونے والی پہلی سیاہ فام مسلم خاتون ہیں۔ امریکا منتقل ہونے سے قبل انہیں کینیا کے تارکین وطن کے کیمپ میں بھی رہنا پڑا تھا۔
امریکی کانگریس کے لیے پہلی مرتبہ منتخب ہونے کے بعد انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ”یہ جیت اس آٹھ سالہ بچی کے لیے ہے جو تارکین وطن کے کیمپ میں تھی۔ یہ جیت اس لڑکی کے لیے ہے جسے زبردستی کم عمری میں شادی کرنی پڑی تھی۔ یہ جیت ہر اس شخص کے لیے ہے جسے خواب دیکھنے سے روکا گیا تھا۔”
راشدہ، الہان، الیگزینڈریا اورایانا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نشانے پر رہی ہیں۔ ان چاروں خواتین کو ٹرمپ کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ صدر ٹرمپ نے گزشتہ برس کہا تھا ”یہ خواتین دراصل ان ممالک سے تعلق رکھتی ہیں جہاں کی حکومتیں مکمل طور پر نا اہل اور تباہی کا شکار ہیں اور دنیا بھر میں سب سے زیادہ کرپٹ ہیں۔” انہوں نے کہا تھا کہ”یہ خواتین بہت چالاکی سے امریکا کے عوام، جو کرہ ارض پر سب سے عظیم اور طاقتور قوم ہیں، کو بتا رہی ہیں کہ ہمیں حکومت کو کیسے چلانا ہے۔“
امریکی صدر نے کہا تھا کہ ”یہ خواتین جہاں سے آئی ہیں وہاں واپس کیوں نہیں چلی جاتیں اور ان مکمل طور پر تباہ حال اور جرائم سے متاثرہ علاقوں کو ٹھیک کرنے میں مدد کریں اور پھر واپس آکر ہمیں بتائیں کہ یہ کیسے کیا جاتا ہے۔”
رشیدہ طلیب اور الہان عمر فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف مسلسل آواز اٹھاتی رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے ان پر یہودی مخالف ہونے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔ تاہم انہوں نے ان الزامات کی ہمیشہ تردید کی ہے۔ اسرائیل نے ان دونوں کے اسرائیل میں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔