امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا میں جوبائیڈن کے صدارتی انتخابات میں کامیابی کے بعد ان کے امریکا کے 46 ویں صدر بننے کے بعد ان کی اہلیہ ڈاکٹر جِل بائیڈن وائٹ ہائوس کی نئی میزبان اور خاتون اول بننے والی ہیں۔
گذشتہ کئی ماہ میں انتخابی مہم کے دوران جِل بائیڈن نے اپنے شوہر کے ہمراہ کئی ریاستوں اور شہروں کے دورے کیے۔ جِل بائیڈن ایک سلجھی ہوئی اور سمجھ دار محب وطن خاتون ہیں۔ انہوںنے امریکیوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی وجہ سے امریکیوں میں جو تقسیم کی لکیر کھنچی ہے جوبائیڈن اسے ختم کریں گے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق 69 سالہ جِل بائیڈن ان کلیدی ریاستوں کے دورے کیے جہاں سے اس کے شوہر کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی اور ڈونلڈ ٹرمپ کو ان کی توقعات کے برعکس ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔
مختلف مواقع پر اپنے خطابات میں ڈاکٹر جِل بائیڈن نے کسی سیاسی تعلق یا تفریق کے بغیر سب کو یکساں الفاظ میں مخاطب کیا۔ دیہات ہوں یا شہر، ری پبلیکن کے حامی ہوں یا ڈیموکریٹس کے حامی، انہوں نے امریکیوں کی صفوں میں وحدت کی بات کی۔ انہوں نے کئی مواقع پر کہا کہ ‘کوویڈ 19’ کی وبا کسی خاص سیاسی طبقے کے خلاف نہیں بلکہ یہ پورے امریکی عوام کے خلاف ہے اور اس کے معاشی نتائج بھی سب کو یکساں اٹھانا ہوں گے۔
ٹرمپ کے انداز خطابت سے مختلف انداز میں بات کرتے ہوئے جِل بائیڈن نے کہا کہ ‘ضروری نہیں کہ ہم ہر چیز پرایک رائے رکھیں اور متفق ہوں۔ مگر ہمیں ہمیشہ محبت اور احترام اور ایک دوسرے کا احساس کرنا چاہیے’۔
جِل بائیڈن نے بتایا کہ سنہ 2015ء کو ان کا ایک بیٹا دماغ کے کینسر کے باعث ہلاک ہوگیا۔ ان کے لیے یہ بہت بڑا صدمہ تھا۔ مگر ہم نے خود کو سنبھالا اور جو بائیڈن کو 2020ء کے صدارتی انتخابات کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے تیار کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا چار سالہ دور حکومت بحرانوں کا عرصہ ہے۔ کشیدگی اور وبا نے امریکا کو بہت نقصان پہنچایا۔ میں اس بیماری کا علاج جانتی ہوں۔ ہمیں یہ باور کرنا ہوگا کہ جس طرح ہم ایک خاندان کو متحد رکھتے ہیں اسی طرح پورے ملک کو متحد رکھنا ہوگا۔ یہ سب کچھ ہمیں شفت، نرمی، شجاعت اور امید کے ذریعے کرنا ہوگا۔
جِل کی جو بائیڈن کے ساتھ شادی 1977ء میں ہوئی۔ جو بائیڈن کی پہلی بیوی کی وفات اور ایک بیٹی کی ٹریفک حادثے میں موت کے پانچ سال بعد وہ رشتہ ازدوج میں منسلک ہوئے۔
ان کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن کے پہلی اہلیہ سے دو بیٹے بو اور ہنٹر تھے جو اس وقت کم سن تھے۔ انہوں نے اپنے والد کو شادی کی اجازت دی۔ جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ شادی کے بعد انہیں ایک نئی زندگی ملی۔
سنہ 1981ء میں جو بائیڈن اور جِل آشلی نامی بیٹی کے ماں باپ بنے۔ بچی کی پیدائش کے بعد کچھ عرصے کے لیے جِل نے حصول تعلیم کا عمل روک دیا مگر جلد ہی انہوں نے یہ سلسلہ بحال کیا اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
وہ اب بھی تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں اور امریکا کی شمالی ورجینیا کی ایک یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔