لاہور (اصل میڈیا ڈیسک) پنجاب کے دارالحکومت میں فضائی آلودگی کا مسئلہ سنگین ہو گیا ہے اور شہر کے مختلف علاقوں میں ائیر کوالٹی انڈیکس 400 سے بھی تجاوز کر گیا۔
لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں اسموگ کا سلسلہ بڑھنے لگا ہے۔ شام کے اوقاتت میں اسموگ کی شدت بڑھ جاتی ہے ، فضائی آلودگی سے متعلق ڈیٹافراہم کرنیوالے بین الاقوامی اداروں کی رپورٹ کے مطابق لاہورمیں آئندہ ایک ہفتے میں ائیرکوالٹی انڈکس 302 سے 442 تک رہنے کا امکان ہے۔ فضائی آلودگی اوراسموگ کی بڑی وجوہات میں گاڑیوں اورفیکٹریوں سے نکلنے والادھواں، اینٹوں کے روایتی بھٹوں سے نکلنے والا دھواں، گردوغبار، فصلوں کی باقیات کولگائی جانیوالی آگ اورکیمیکل فیکٹریوں کادھواں شامل ہے۔
لاہورسمیت پنجاب کے دیگرشہروں میں اسموگ پرقابو پانے کے لئے فصلوں کی باقیات جلانے پردفعہ 144 نافذ ہے، اینٹوں کے بھٹے بھی 7 نومبرسے بندکئے جاچکے ہیں ، جبکہ پی ایچ اے کی طرف سے اسموگ سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں صبح وشام پانی کاچھرکاؤ کیاجارہا ہے۔ پنجاب کے وزیرماحولیات باؤ رضوان نے بتایا کہ عدالتی حکم کے مطابق 7 نومبر سے اینٹوں کے روایتی بھٹے بندکردیئے گئے ہیں جو 31 دسمبر تک بندرہیں گے ۔ ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والوں پر ایک ماہ میں 165 ایف آئی آر درج کرچکے ہیں اوریہ کارروائیاں جاری ہیں۔
چیئرمین ماحولیاتی کمیشن جسٹس ریٹائرڈ علی اکبر قریشی کہتے ہیں حکومت نے اسموگ کے حوالے سے کوئی لانگ ٹرم پالیسی نہیں بنائی ہے۔ سرکاری ادارے خود کوڑے کو جمع کر کے آگ لگا نے میں مصروف ہیں۔ لوگ 2ہزار جرمانہ ادا کر دیتے ہیں، گاڑی ٹھیک نہیں کرواتے ہیں۔
دوسری طرف ریلیف کمشنر پنجاب بابرحیات تارڑ نے ڈی سی لاہور کو اسموگ بارے اختیارات تفویض کردئیے ہیں۔ ڈی سی لاہورنے بتایا کہ گزشتہ چندروزمیں 564 گاڑیوں کو بند ،238 فیکٹریوں کے چالان کر کے 20 لاکھ جرمانہ وصول کیا گیا ہے۔ ریلیف کمشنر نے سیکرٹری آرٹی اے ،ماحولیات اور زراعت آفیسرز کو بھی آخری وارننگ دے ہے اوراسموگ کی روک تھام کے لئے اقدامات تیزکرنے کاکہا ہے۔ ریلیف کمشنرکاکہنا ہے بھارت میں فصلوں کی باقیات جلانے سے 12 فیصد جبکہ پنجاب میں 8 فیصد اسموگ پیداہوتی ہے، گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں سے 43 فیصد، فیکٹریوں اورکارخانوں سے نکلنے والی گیسوں اوردھویں سے 25 فیصد جبکہ 20 فیصداسموگ فصلوں اورکوڑے کرکٹ جلائے جانے سے پیدا ہوتی ہے۔
ڈائریکٹرجنرل محکمہ زراعت توسیع پنجاب ڈاکٹرانجم علی بٹر نے بتایا کہ انہوں نے اسموگ کا سلسلہ شروع ہونے سے قبل ہی صوبے بھرمیں فصلوں خاص طورپردھان کی باقیات کوجلانے پرپابندی لگادی تھی ، گزشتہ سال کی نسبت اس سال فصلوں کی باقیات جلانے کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے اورکاشتکارجدیدطریقوں سے دھان کی باقیات کوتلف کرتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ بھارتی پنجاب میں فصلوں کی باقیات جلائے جانے کی اطلاعات ہیں اس وجہ سے لاہور،سیالکوٹ ، ناروال اوردیگرمشرقی سرحدی علاقوں میں اسموگ بڑھنے کے خدشات ہیں۔
ادھر شہر میں فضائی آلودگی ماپنے کے آلات بارے اہم انکشاف ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق، محکمہ ماحولیات پنجاب کے پاس 7 ائیر مانیٹرنگ سٹیشن اور ایک موبائل یونٹ ہے۔ 7 ائیر مانیٹرنگ سٹیشن میں سے بھی 4 غیر فعال ہوچکے ہیں، جنہیں مرمت نہیں کروایا جارہا۔ 2015 میں خریدے گئے تمام ایئرپوائنٹر بھی ہیڈ آفس میں خراب پڑے ہوئے ہیں۔
اسموگ کے بڑھتے ہوئے اثرات کی وجہ سے شہری پریشان دکھائی دیتے ہیں،مغلپورہ کی رہائشی عائشہ اعجاز کہتی ہیں اسموگ کی وجہ سے آنکھوں میں جلن اورسانس لینامشکل ہورہا ہے ، اسموگ کے ساتھ ساتھ اب دوبارہ کروناکا بھی خطرہ ہے، اس لئے وہ لوگ نہ صرف خودباہرجاتے ہوئے ماسک استعمال کرتی ہیں بلکہ بچوں کو سکول بھیجتے ہوئے بھی ماسک پہناتی ہیں۔
دروغہ والا کے رہائشی محمدامین کہتے ہیں ان کے علاقے میں تو پورا سال ہی فضا آلودہ رہتی ہے، اس علاقے میں خاص طورپربندروڈکے ساتھ درجنوں لوہے کی ملزہیں جو گاڑیوں کے ٹائرجلاتے ہیں، اب جب سردیاں شروع ہوئی ہیں توکاربن کے ذرات فضامیں موجود رہتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ یہاں کوئی گھرایسا نہیں ہوگا جہاں اس آلودگی کی وجہ سے کوئی فردبیمارنہ ہو، سانس لینے میں مشکل آتی ہے، گھروں کی چھتوں اورصحن میں کاربن گرتا ہے، حکومتی اداروں کو شکایات کے باوجود کوئی کارروائی نہیں ہوتی ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ شہری اسموگ سے بچاؤ کے لیے ماسک کا استعمال کریں اور جب بھی باہرسے واپس گھر یا دفتر پہنچیں تو آنکھوں اور چہرے کو پانی سے دھوئیں ، ماہرین کے سفر کرتے وقت چشمہ استعمال کریں ،اس احتیاط سے کورونااور اسموگ دونوں سے محفوظ رہاجاسکتا ہے۔