واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) امریکہ کے نومنتخب صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے صدارتی انتخاب میں اپنی شکست تسلیم نہ کرنا ’باعث شرمندگی ہے۔‘
جو بائیڈن، جو کہ الیکشن کے متوقع نتائج میں فاتح قرار پائے ہیں اور عالمی رہنماؤں سے رابطے قائم کرنے میں مصروف ہیں، نے زور دیا ہے کہ قیادت کو منتقل ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
یہ بحث اس وقت شروع ہوئی جب صدر ٹرمپ نے ٹوئٹر پر ایک ٹویٹ کرتے ہوئے غیر مصدقہ دعویٰ کیا کہ وہ اختتام میں جیت جائیں گے اس بات سے قطع نظر کہ اکثر بڑے ذرائع ابلاغ انتخاب میں اُن کی شکست کی تصدیق کر چکے ہیں۔
ریاستی نتائج کی سرکاری سطح پر تصدیق نہیں ہوئی اور کچھ مقامات پر ووٹوں کی گنتی بھی جاری ہے۔ الیکشن کے حتمی نتائج کا اعلان 14 دسمبر کو امریکی الیکٹورل کالج کی ایک ملاقات میں ہو گا۔
ڈیموکریٹ امیدوار بائیڈن سے جب منگل کو ڈیلاویئر میں ایک رپورٹر نے پوچھا کہ وہ ٹرمپ کی جانب سے شکست تسلیم نہ کرنے پر کیا سوچتے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ ’میرے مطابق یہ باعث شرمندگی ہے۔‘
’میں ایک بات کہہ سکتا ہوں کہ اس سے صدر کی میراث کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔۔۔ دن کے اختتام پر آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ 20 جنوری کو سب واضح ہو جائے گا۔‘ یہاں وہ صدارت کی منتقلی کی تقریب کا حوالہ دے رہے تھے۔
بائیڈن جہاں ایک طرف صدارت کا عہدہ سنبھالنے کی تیاریاں کر رہے ہیں تو وہیں ان کے عالمی رہنماؤں سے بھی رابطے قائم ہوئے ہیں۔
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن، فرانسیسی صدر ایمانویل میکخواں اور جرمن چانسلر اینگلا مرکل نے ان سے منگل کے روز بات چیت کی۔
ان رابطوں پر بائیڈن کا کہنا تھا کہ ’میں نے انھیں بتایا ہے کہ امریکہ واپس آ گیا ہے۔ ہم گیم میں واپسی کر رہے ہیں۔‘
جہاں وہ اور نومنتخب نائب صدر کملا ہیرس مستقبل کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں اسی دوران ٹرمپ کا تعینات کردہ ایک افسر امریکی صدارت کی منتقلی میں تاخیر کرنے میں مدد کر رہا ہے۔
جنرل سروسز ایڈمنسٹریشن نامی امریکی ادارہ مختلف اداروں کی فنڈنگ اور الیکشن کے بعد نئی انتظامیہ تک اداروں سے متعلق معلومات فراہم کرتا ہے۔ اس ادارے نے اب تک بائیڈن کو نومنتخب صدر تسلیم نہیں کیا۔
بائیڈن کا کہنا ہے کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ کوئی چیز ہماری رفتار کم کر سکے گی۔‘
منگل کو صدر ٹرمپ نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’ووٹوں کی گنتی میں بڑی بدعنوانی ہوئی ہے۔۔۔ ہم جیت جائیں گے۔‘
مگر ٹوئٹر نے ان کی ان ٹویٹس کو متنازع قرار دیا ہے۔
صدر کا کہنا ہے کہ بائیڈن صرف اس وجہ سے الیکشن جیتے کیونکہ صدارتی انتخاب میں بدعنوانی ہوئی۔ تاہم صدر ٹرمپ کی جانب سے اب تک اس الزام کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو، جنھیں ٹرمپ کا بڑا حامی سمجھا جاتا ہے، نے منگل کو کہا کہ جب تمام جائز ووٹوں کو گن لیا جائے گا تو یہ ثابت ہو جائے گا کہ ٹرمپ انتظامیہ کا دوسرا دور شروع ہو گیا ہے۔
اس دوران رپبلکن پارٹی کے بعض سینیئر رہنماؤں نے بائیڈن کی متوقع فتح کو تسلیم نہیں کیا۔ جب سینیٹر رون جانسن سے اس بارے میں پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ ’(بائیڈن کو) مبارکباد دینے کا کوئی جواز نہیں۔‘
سینیٹر روئے بلنٹ کہتے ہیں کہ ٹرمپ شاید کبھی ہارے ہی نہیں تھے۔
سینیٹ میں رپبلکن رہنما مِچ مکونل کے مطابق ٹرمپ کے پاس حق ہے کہ وہ پینسلوینیا جیسی کڑے مقابلے والی ریاست میں قانونی چارہ جوئی کریں۔
پینسلوینیا میں ایک پوسٹل ورکر نے دعویٰ کیا تھا کہ حکام نے ڈاک کے ذریعے درج کردہ ووٹوں میں بدعنوانی کی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ پینسلوینیا میں ایک پوسٹ ماسٹر نے ملازمین سے کہا تھا کہ ووٹوں کو پچھلی تاریخ میں درج کر دو تاکہ انھیں گنا جا سکے۔
انھوں نے حلف لے کر یہ دعویٰ قانونی طور پر ایوان نمائندگان کی ایک کمیٹی میں درج کروایا۔ لیکن اس کمیٹی کا کہنا ہے کہ جب امریکی پوسٹل سروس کے انسپیکٹر جنرل نے اُن سے پوچھ گچھ کی تو انھوں نے اپنا الزام واپس لے لیا تھا۔
بیان میں کہا گیا کہ یوٹیوب پر لگائی گئی ایک ویڈیو میں اس فرد کا کہنا تھا کہ ’میں نے یہ بیان درج نہیں کروایا۔۔۔ ایسا نہیں ہوا اور آپ اس بارے میں کل تک جان لیں گے۔‘
ٹرمپ نے اس ویڈیو کو ری ٹویٹ کیا تھا اور اس فرد کو سراہا تھا۔
ٹرمپ کے حامیوں نے اس شخص کے بیان کی بنیاد پر قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔