جارجیا (اصل میڈیا ڈیسک) نو منتخب نائب صدر کملا ہیرِس جب جنوری میں اپنے عہدے پر براجمان ہو جائیں گی تو ایک نئی تاریخ رقم ہو گی۔ لیکن شاید کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ ایک اور خاتون بھی ہیں جنھوں نے بائیڈن، کملا ہیرس کو وائٹ ہاؤس تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
نائب صدارت کی پہلی سیاہ فام ایشیا نژاد امریکی خاتون امیدوار نے انتخابی مہم کے آغاز ہی سے پوری کوشش کی تھی کہ ایک خاص قسم کی عورتوں کا گروہ ان کی انتخابی مہم میں نمایاں نظر آئے اور وہ تھیں اقلیتی خواتین۔
سینیٹر ہیرس نے اس بات کو سمجھا کہ ’اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی عورتیں خاص کر سیاہ فام، اکثر نظر انداز ہو جاتی ہیں لیکن کئی مرتبہ یہ ثابت ہوا ہے کہ جمہوریت کے لیے ان کا بنیادی کردار رہا ہے۔‘
اٹلانٹا، جارجیا کے ذرا باہر اپنے گھر میں ہنٹ خاندان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے جب انھوں نے کملا ہیرِس کی تقریر سُنی۔
27 سالہ کرسٹین ہنٹ کا کہنا ہے کہ ’جارجیا میں ڈیموکریٹس کامیاب ہو چکے ہیں، جو کہ اس ریاست اور اس کے شہریوں کے لیے ایک تاریخ ساز تبدیلی ہے، خاص کر سیاہ فام شہریوں کے لیے۔‘
’اس کی وجہ سٹیسی ابرامز اور بہت ساری سیاہ فام عورتیں ہیں جو مقامی سطح پر عام لوگوں سے رابطے میں رہنے والی تنظیم سے وابستہ ہیں، جنھوں نے شہریوں کے ووٹوں کو رجسٹر کرایا اور انھیں آگاہ کیا کہ ان کے ایک ایک ووٹ کی بہت حیثیت ہے۔‘
جو بائیڈن کی کامیابی کا دار و مدار سیاہ فام امریکیوں کی حمایت پر رہا ہے۔ سیاہ فام امریکی ووٹروں نے اُنھیں جنوبی کیرولینا میں ڈیموکریٹس کی پرائمری میں کامیابی دلائی جس کی بدولت پھر ان کے لیے کامیابیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور بعد میں ان کی صدارتی امیدوار کے طور پر نامزدگی ہوئی۔
انھیں پینسلوینیا میں کامیابی بھی ملی اور بالآخر وہ صدارتی انتخاب میں کامیاب ہو گئے۔ ان سب کامیابیوں کا سہرا زیادہ تر فلاڈیلفیا اور پِٹسبرگ کے سیاہ فام ووٹروں کے سر جاتا ہے۔ ایک ایگزٹ پول کے مطابق، تقریباً ہر دس سیاہ فام ووٹروں میں سے نو نے ڈیموکریٹس کی حمایت کی، اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے سنہ 2016 کے انتخابی نتائج کی نسبت اس مرتبہ اپنے سیاہ فام ووٹروں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔
لیکن اگر آپ ان شہروں میں جا کر معلوم کریں کہ بائیڈن کی کامیابی میں کس کا کردار ہے تو وہاں لوگ اس کا سہرا وہاں کی سیاہ فام کمیونٹی کی عورتوں کے سر باندھتے ہیں۔
فلوریڈا کے شہر جیکسون وِل کی ایک آرگنائزر کروشنڈر سکاٹ جیسی کئی عورتوں نے مجھے بتایا کہ انھیں ڈرایا دھمکایا بھی گیا تھا اور انتخابات کے آخری دنوں میں جب وہ اپنے روایتی تاریخی سیاہ فام حلقوں میں لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دے رہی تھیں ان کی حفاظت کا خصوصی انتظام بھی کیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ فلاڈیلفیا کی برٹنی سمال نے، جو ووٹ ڈالنے کے حق کے لیے کام کرتی ہیں، کہا کہ انھوں نے اپنی مقامی کمیونٹی میں ووٹروں کو ان کا حق استعمال کرنے کے لیے تعلیم و آگہی کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کر رکھی ہے کیونکہ ان کے خیال میں ان کے ووٹوں کی ایک حیثیت ہے۔
اور جارجیا میں ساری کی ساری ڈیموکریٹ پارٹی سٹیسی ابرامز کی تعریف میں ایک متفق رائے رکھتی ہے۔ لنڈا گرانٹ، جنھوں نے اس مرتبہ اپنی پارٹی کے لیے ووٹنگ کی مانیٹرنگ کی، کہتی ہیں کہ مس ابرامز کا اکثر نام اس انداز سے لیا جاتا ہے جیسے ہم کہہ رہے ہوں کہ ’کام پایہِ تکمیل تک پہنچاؤ۔‘
لیکن زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب جارجیا کی ڈیموکریٹ پارٹی ابرامز کو ایک اور لقب سے یاد کیا کرتی تھی: وہ تھا گورنر۔ سنہ 2018 میں انھوں نے پہلی سیاہ فام امریکی عورت کی حیثیت سے گورنر کے عہدے کے لیے انتخابات میں حصہ لے کر ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔
ان کے مخالف ریپبلکن پارٹی کے امیدوار تھے جارجیا کے سیکریٹری آف سٹیٹ، برائین کیمپ۔ اس عہدے پر چھ برس تک براجمان رہنے والے برائین کیمپ نے جارجیا کے پانچ لاکھ شہریوں کے ووٹوں کو غیر فعال یا تکنیکی بنیادوں پر منسوخ کردیا تھا۔ تاہم جس بات کو کیمپ نے ووٹروں کے رجسٹر کو اپ ڈیٹ کرنا کہا، اُسی کام کو مس ابرامز جیسے اور کئی لوگوں نے شہریوں کو حقِ رائے دہی سے محروم کرنا کہا۔
کرفوشنڈر سکاٹ فلوریڈ کے شہر جیکسن وِل جبکہ برٹنی سمال فلاڈیلفیا میں غیرسرکاری تنظیم ’بلیک ووٹرز میٹر‘ کی آرگنائزز ہیں
اس کے باوجود کیمپ صرف پچاس ہزار ووٹوں کے فرق سے انتخاب جیتے۔ کیمپ کی کامیابی کے بعد مس ابرامز نے اپنی تقریر میں ایک نئی تنظیم قائم کرنے کا اعلان کیا جس کا مقصد ووٹنگ رجسٹر سے ووٹوں کے اخراج کے خلاف جدوجہد کرنا تھا جو ان کی شکست کا سبب بنا تھا۔ مس ابرامز نے اپنی شکست تسلیم نہیں کی تھی۔
مس ابرامز نے کہا تھا کہ ’ہم ایک بہت طاقتور قوم ہیں کیونکہ ہمارے قومی تجربے میں یہ بات رچ بس چکی ہے کہ جو چیز کام نہیں کرتی ہے اسے کام کرنے کے قابل بناؤ۔‘
دو برس کے بعد مس ابرامز اور ان کے ساتھ بہت ساری عورتوں کے ایک نیٹ ورک نے صرف جارجیا میں آٹھ لاکھ نئے ووٹ رجسٹر کروا لیے۔ اور اگرچہ وہاں ووٹوں کی دوبارہ سے گنتی ہو گی، مس ابرامز اور ان کے رضاکاروں کی جارجیا میں صدارتی انتخاب میں تھوڑے سے فرق کے ساتھ ڈیموکریٹس کی کامیابی کی وجہ سے بے انتہا تعریف کی جا رہی ہے۔ ڈیمو کریٹس کو یہ کامیابی دو دہائیوں کے بعد پہلی مرتبہ ملی ہے۔
جنوری میں یہی ووٹ ہوں گے جو ایک مرتبہ پھر ایک کلیدی کردار ادا کریں گے کیونکہ جارجیا کی سینیٹ کی نشست کا فیصلہ بھی بہت اہم ہوگا۔ جو جماعت بھی یہ نشست حاصل کرے گی اس کی سینیٹ میں اکثریت بنے گی۔ اگر جارجیا بائیڈن کو کامیاب کرا دیتا ہے تو نومنتخب صدر مس ابرامز اور ان کے رضاکاروں کی تنظیم کے ممنون و احسان مند ہوں گے۔
’مس ہنٹ کہتی ہیں کہ ‘وہ (سٹیسی ابرامز) آرام سے یہ کہہ کر بیٹھ سکتی تھی کہ اوہ میں تو ہار گئی ہوں! لیکن انھوں نے اسے پارٹی کی فتح میں بدل دیا اور انھوں نے قدم اٹھایا اور اپنی کمیونیٹی کے زیادہ سے زیادہ تعداد میں ووٹ رجسٹر کرائے۔’
کرِسٹین ہنٹ اور ٹیریسا ولسن دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ ابرامز کی کاوشوں کی وجہ سے اس ریاست میں سیاہ فام امریکوں کا اپنے ووٹوں کو دیکھنے کا انداز اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل جائے گا۔
وہ کہتی ہے کہ ‘(مس ابرامز) کے باہر جانے اور اپنے قدم زمین پر جمائے رکھنے اور ان تمام شہریوں کو رجسٹر کرانے نے نہ صرف جارجیا بلکہ پوری قوم کی زندگی میں ایک بہت بڑی تبدیلی بپا کر دی ہے۔’
‘میرا خیال ہے کہ ہمیں ہر الیکشن کے وقت بے قدری کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا جیسے ہمارے ووٹ کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے ہیں، لیکن اب پوری قوم ہی نہیں بلکہ ساری دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ ہمارے ووٹوں کی ایک حیثیت ہے۔’