ہانگ کانگ (اصل میڈیا ڈیسک) ہانگ کانگ میں قانون سازوں کو کسی عدالتی چارہ جوئی کے بغیر برطرف کردینے کے ایک نئے متنازعہ قانون کی مخالفت میں اپوزیشن کے تمام 15 اراکین نے لیجسلیٹیو کونسل سے استعفی دے دیا ہے۔
اپوزیشن قانون سازوں نے یہ قدم اس وقت اٹھایا جب بدھ کے روز ہانگ کانگ لیجسلیٹیو کونسل سے ان چار اراکین کو برطرف کردیا گیا جو جمہوریت کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں کی تائید کرتے رہے ہیں۔
جمہوریت نواز گروپ کے کنوینر وو چی۔وائی نے ایک پریس کانفرنس میں اپوزیشن رہنماوں کے مستعفی ہوجانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا”آج ہم اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے جا رہے ہیں کیوں کہ مرکزی حکومت نے بے رحمی کے ساتھ قدم اٹھاتے ہوئے ہمارے رفقائے کار، ہمارے ساتھیوں کونا اہل قرار دے دیا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ ”گوکہ ہمیں مستقبل میں جمہوریت کے لیے جنگ میں بہت سارے مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن ہم اپنی لڑائی جاری رکھیں گے، ہم کبھی ہار نہیں مانیں گے۔”
وو نے بتایا کہ اپوزیشن کے تمام اراکین جمعرات کے روز اپنے استعفے پیش کردیں گے۔
کن قانون سازوں کو نا اہل قراردیا گیا؟ ہانگ کانگ کی سٹی ایگزیکیوٹیو نے چار قانون سازوں کو ‘قومی سلامتی‘ کی وجوہات کی بنا پر نااہل قرار دے دیا ہے۔
قانون سازوں کو نااہل قراردینے کا فیصلہ چینی حکومت کی جانب سے منظور کردہ اس قانون کے فوراً بعد کیا گیا جس کی رو سے حکومت عدالتی چارہ جوئی کے بغیر ہی کسی قانون ساز کو برطرف کرسکتی ہے۔
برطرف کیے جانے والے قانون سازوں میں جمہوریت نواز ایلوین یونگ، کووک کا۔کی، کینیتھ لیونگ اور ڈینس کووک شامل ہیں۔
سٹی گورنمنٹ کا کہنا ہے کہ ان چاروں افراد سے قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔ حکومت نے تاہم اس کی کوئی تفصیل نہیں بتائی۔ دوسری طرف کووک نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے اس الزام کو ‘مضحکہ خیز‘ قرار دیا۔
کووک کا کہنا تھا کہ بدھ کے روز ہونے والی پیش رفت کے نتیجے میں 1997میں منظور کردہ’ایک ملک۔ دو نظام‘ قانون کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ اس قانون میں آئینی ضابطوں کے ساتھ ہانگ کانگ کی خود مختاری کی ضمانت دی گئی تھی لیکن اب جو کوئی بھی قانون ساز، چیف ایگزیکیوٹیو کو ناپسند ہوگا، وہ اسے نکال باہر کریں گی۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں جو آئینی ضابطے حاصل تھے وہ اب ختم ہوچکے ہیں۔”
کووک تاہم اب بھی ہانگ کانگ کے عوام سے پرامید ہیں۔ ”ہم ایک انتہائی سخت دور سے گزر رہے ہیں اور ہمیں لگتا ہے کہ آنے والے دن اور بھی مشکل اور مصائب سے پر ہوں گے… تاہم میں اب بھی ہانگ کانگ کے عوام کے دل و دماغ میں جمہوریت کے تئیں امنگ اور جنون کو محسوس کرسکتا ہوں۔ قانونی کی حکمرانی کے لیے ان کی امنگیں، آزادی کے لیے ان کی امنگیں، جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ چیزیں ختم نہیں ہونے والی ہیں۔”
دریں اثنا ہانگ کانگ کی رہنما کیری لیم کا کہنا ہے کہ اراکین کو نا اہل قرار دیا جانا ‘آئینی، قانونی، منطقی اور ضروری تھا۔”
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے نئے قوانین کی نکتہ چینی کی ہے۔ بین الاقوامی حقوق انسانی کے ادارے کا کہنا ہے کہ ”یہ اپنے ناقدین کو کسی بھی طرح سے خاموش کردینے کی چین کی مرکزی حکومت کی مہم کی ایک اور مثال ہے۔”
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایشیا بحرالکاہل کی علاقائی ڈائریکٹر یامینی مشرا کا کہنا تھا” ہانگ کانگ نے ایک بار پھر اپنے قوانین اور اپنے قانون سازیہ کو نظر انداز کرنے کے لیے بیجنگ کو اجازت دے دی۔ چینی حکومت کے بنائے گئے قوانین کو یک طرفہ طورپر نافذ کرنے کا فیصلہ قانون کی حکمرانی کا مذاق ہے۔”
نئے قانون کی رو سے کسی بھی ایسے قانون ساز کو برطرف کیا جاسکتا ہے جو قومی سلامتی کے لیے خطرہ محسوس ہو، ہانگ کانگ کی آزادی کی حمایت کرے، ہانگ کانگ پر چین کی خود مختاری کو تسلیم کرنے سے انکار کرے یا بیرونی طاقتو ں سے مداخلت کرنے کی اپیل کرے۔
اس قانون کو چین کے نیشنل پیپلز کانگریس اسٹینڈنگ کمیٹی کی منگل اور بدھ کے روز منعقدہ میٹنگ میں منظوری دی گئی تھی۔
70رکنی ہانگ کانگ لیجسلیٹو کونسل کے اپوزیشن اراکین نے دھمکی دی تھی کہ اگر کسی بھی جمہوریت نواز قانون ساز کو نااہل قرار دیا گیا تووہ اجتماعی طورپر استعفی دے دیں گے۔