آسٹریلیا (اصل میڈیا ڈیسک) آسٹریلوی وزیراعظم نے فوجی نظام میں سنگین خامیوں کا اقرار کرتے ہوئے فوج میں اصلاحات کے لیے نئے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔
آسٹریلوی فوجیوں کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات کا تعلق ان کی افغانستان میں سن دو ہزار پانچ سے سن دو ہزار سولہ کے دوران تعیناتی سے ہے۔
بیشتر الزامات کی تفصیل واضح نہیں۔ تاہم حالیہ برسوں میں آسٹریلوی میڈیا نے بعض سنگین واقعات رپورٹ کیے۔ ان میں فوجیوں کے ہاتھوں افغان شہریوں کی ہلاکتوں اور جنگی قیدیوں کے ساتھ زیادتیوں کے واقعات شامل ہیں۔
اس سال مارچ میں آسٹریلوی براڈکاسٹنگ کارپوریشن نے ایک ویڈیو فوٹیج بھی نشر کی جس میں آسٹریلیا کی اسپیشل ایئر سروس کے ایک فوجی کو ایک نہتے افغان شخص کو سر میں گولی مارتے دکھایا گیا۔
آسٹریلوی ڈیفنس فورس (اے ڈی ایف) کا کہنا ہے کہ پچھلے چار سال کے دوران اس قسم کے الزامات کی اندرونی طور پر تفتیش کی جاتی رہی ہیں۔
پچھلے ہفتے آسٹریلوی افواج نے انکشاف کیا کہ اس ضمن میں 55 واقعات میں تحقیقات کی گئیں، جن میں 336 گواہوں سے سے شواہد یا ثبوت اکھٹے کیے گئے۔
فوجیوں کی مبینہ زیادتیوں سے متعلق یہ تفصیلی رپورٹ آئندہ ہفتے منظر عام پر لائی جائے گی۔
افغانستان میں آسٹریلیا کے کُل 39000 فوجیوں نے خدمات انجام دیں جن میں سے 41 مارے گئے۔
جمعرات کو وزیراعظم اسکاٹ موریسن نے آسٹریلوی افواج کا مجموعی طور پر دفاع کیا تاہم انہوں نے کہا کہ ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جن میں فوجی اہلکار مطلوبہ ”توقعات اور معیار پر پورے نہیں اترے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ آسٹریلوی شہریوں کے لیے اپنی افواج کے حوالے سے آئندہ ہفتے شائع ہونے والی رپورٹ ”مشکل اور سخت‘‘ ہوگی لیکن ان الزامات کی تفتیش اور جوابدہی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان الزامات کو مزید گہرائی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
اس موقع پر انہوں نے افغانستان میں اپنے فوجیوں کی طرف سے جنگی جرائم کے الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک اسپیشل پراسیکیوٹر نامزد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
آسٹریلوی وزیراعظم نے عندیہ دیا کہ تحقیقات سے ظاہر ہوا ہے کہ آسڑیلوی افواج کے نظام میں سنگین مسائل ہیں، جس کی اصلاح کے لیے نئی کمیٹی قائم کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان حالات میں ”ماحول، تناظر، قوائد، روایات اور قیادت‘‘ کا عمل دخل ہوتا ہے جسے بدلنے کی ضرورت ہے۔
آسٹریلوی حکومت کے مطابق فوج میں اصلاحات کی نگرانی کرنے والی کمیٹی حکومت اور افواج کے زیر اثر نہیں ہوگی اور اس کا کام احتساب اور شفافیت یقینی بنانا ہوگا۔