نئی صنف سخن ”چوکھمیوں” شاعری مجموعہ کے متعلق علمی و ادبی حضرات کو اپنے ایک پہلے کالم ”یہ چوکھمبیاں کیا ہیں” میں عرض کر چکے ہیں کہ یہ ہمارے ہر دلعزیز جناب یوسف راہی چاٹگامی کی ایجاد ہے۔ اب یوسف راہی نے اپنے شاعری مجموعہ کتب میں” نعتیہ چوکھمبیاں” کااضافہ کیا ہے۔ یوسف راہی ایک زیرک شاعر ہیں۔ان کی شاعری میں زندگی پوری توانائی کے ساتھ ہے اور جمال شعریت سے معمور ہے۔
یوسف راہی کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔انکی تخلیقات میں١:۔” اشک سوزاں”( غزلوں کا مجموعہ)٢:۔ولائے محمدۖ ( نعتیہ مجموعہ)٣:۔ثنائے سید الکونینۖ(نعتیہ مجموعہ) ٤:۔” چوکھمبیاں ” اُردو ادب میں نئی صنف سخن٥:۔”سنگ و سمن” ( غزلوں کا مجموعہ۔کاوش عمر) ٦:۔”بحر خوں”(ملی نظموں کا مجموعہ(کاوش عمر) ٧:۔”١٠٠ مشہور نعتیں”( نعتیہ انتخاب)٨:۔”٢٠٠ مشہور نعتیں”(نعتیہ انتخاب)٩:۔”شیشوں کا مسیحا”( کمال احمد رضوی کا ڈرامہ)١٠:۔”کلید سخن ”(خلش کلکتوی) زیر طبع ”١:۔”ایضا سخن”( اصلاح سخن) علامہ تمنا عمادی ٢:۔”نوائے شوق”(مناقب کاوش عمر)٣:۔” شہر خوباں”(یوسف راہی چاٹگامی)( غزلوں اور نظموں کا مجموعہ) شامل ہیں۔ زیربحث کتاب” نعتیہ چوکھمبیاں” نعتیہ ادب میں بھی نئی صنف سخن یوسف راہی کی اختراع ہے۔
محسن اعظم محسن ملیح آبادی،شاعرنقاد محقق یوسف راہی کی” چوکھمبیوں” کے متعلق فرماتے ہیں کہ اُردو اصناف سخن میں قطعہ چار مصرعوں کی ایک صنف پہلے سے موجود تھی۔شاعر موصوف نے روایتی قطعے کی ہیئت بدل کر” چوکھمبی ” اختراع کی ہے۔ روایتی قطعے اور” چوکھمبی” میں فرق یہ ہے کہ ”چوکھمبی” کے چاروں مصرع مقفع ہوتے ہیں، چاہیں تو ردیف کا بھی اہتمام کر سکتے ہیں۔ دوسری خصو صیت یہ ہے کہ ”چوکھمبی” کی بحر مخصوص کر دی ہے، یعنی متقارب مشمن سالم یا محذوف میں چوکھمبیاں تخلیق کی ہیں۔” چو کھمبیاں ” کا پہلا مجموعہ منصئہ شہود پر آنے کے بعد اب” نعتیہ چوکھمبیاں” تخلیق کی ہیں۔نئی صنف سخن” چوکھمبی” کی تخلیق کرنے والے یوسف راہی ”تعارف چوکھمبی” کے عنوان سے اپنی چوکھمبی کی خود اس طرح تشریع میں فرماتے ہیں:۔
ہے”چوکھمبی” ایک ہیئتِ نواے راہی! میں ہوں اِس کا موجد،ہے یہ میری ایجاد ہے ”بحر تقارب” فقط بحر اُس کی پسندیدہ ہو گی یہ صنفِ سخن بھی
بے شک ہم مانتے اور جانتے ہیں کہ یہ یوسف راہی صاحب ہی کی ایجاد ہے۔ اس لیے کہ ہم نے پہلے ایسی شاعری نہیں دیکھی۔ان شاء اللہ یہ نئی صنف سخن عوام کی پسندیدہ بھی ہو گی۔”نعتیہ چوکھمبیاں” شاعری کی کتاب کوپانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ پہلے حصہ” حمدیہ چوکھمبیاں”دوسرا” دعائیہ چو کھمبیاں” تیسرا”نعتیہ چوکھمبیاں” چوتھا”یہ دنیا بنی ہے برائے رسولۖ ”اورپانچواں”مدینہ ہے گلزارِ جنت سراسر” ہے۔ہر حصے میں اس کے عنوان کے تحت بے مثال شعر تخلیق کیے ہیں۔ نعتیہ شاعری کا مجمومعہ” نعتیہ چوکھمبیاں” ایک بہتری کا شہکارہے۔ سارے شعر ایک سے ایک بڑھ کر ہیں۔ہم نے اپنے ذوق کے مطابق کچھ اشعار منتخب کیے ہیں۔یوسف راہی کتاب کے” حمدیہ” حصہ میں سارے جہانوں کے مالک کے سامنے ہاتھ کھڑے کر کے فرماتے ہیں:۔
سوائے خدا کوئی مالک نہیں کہ در پرجھکائو اسی کے جبیں اگر زندگی ہے بنانا حسیں کرو طاعت خالقِ عالمیں
بے شک اللہ تعالیٰ ہی سارے جہانوں کا مالک ہے۔ اسی کے در پر جبیں جھکنے سے ہی انسان کی زندگی حسین بن سکتی ہے۔ اللہ کے پسندیدہ بندہ بننے کے لیے خالق عالمیں کی طاعت لازم ہے۔ ” دعائیہ” حصہ میں اللہ سے اس طرح دعا کرتے ہیں:۔
٢ کہ جب تک سرِ بزمِ دنیا ر ہوں محمدۖ محمد ۖ میں پڑھتا رہوں میں ہر اک کی آنکھوں کا تارا رہوں میں دیوانہ خیر الورا ۖ کا رہوں
اس چوکھمبی میں شاعر اللہ تعالی سے دعا ء مانگتا ہے کہ رب کریم جب تک تم مجھ کو زندہ رکھے، میں محمد ۖ محمدۖ پڑھتا رہوں۔میں اس کام کیوجہ سے دنیا میں ایک تارے کی ماند روشن رہوں۔ رسولۖ کا دیونہ بنا رہوں۔”نعتیہ” حصہ میں رسولۖ اللہ کی تعریف میں اس طرح فرماتے ہیں:۔
صداقت کا مینار ہیں آپۖ ہی خدا سے ضیا بار ہیں آپۖ ہی کہ اک بحرِ انوار ہیں آپ ۖ یہی فقط ذاتِ معیار ہیں آپ ۖ یہی
اس چو کھمبی میں شاعر ،رسول ۖ اللہ کو صداقت کا مینار کہتا ہے۔ اللہ کی رحمتیں رسولۖ اللہ پر نازل ہوتیں ہیں۔رسول ۖاللہ ہی صرف ذاتِ معیار ہیں۔” یہ دنیا بنی ہے برائے رسولۖ ” حصہ میں شاعر فرماتے ہیں:۔
جو اُن کا نہیں ہے خداکا نہیں ہے اس بات پر ہم کو پورا یقیں وہیۖ تیرگی میں چراغِ مبیں وہی ۖ صرف صادق ہیں امیں
اس چو کھمبی میں شاعر کہتا ہے جو رسولۖ کا نہیں۔ اس کو خدا بھی نہیں چاہتا۔ اس بات پر دنیا کویقین کر لینا چاہیے کہ رسول ۖہی چراغ مبیں ہے اور رسولۖ ہی صادق اور امین ہے۔لہٰذا ،رسولۖ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔حصہ” مدنیہ ہے گلزارِ جنت سراسر” میںرسولۖ اللہ کے پسندیدہ شہرِ مدینہ کے متعلق فرماتے ہیں:۔
یم ِرنگ و بو ہے مدینہ فقط کہ فردوس رو ہے مدینہ فقط گلستان خو ہے مدینہ فقط مری آرزو ہے مدینہ فقط
رسولۖ کے شہر مدینہ کے متعلق شاعر اپنی چوکھمبی میں لکھتا ہے کہ یہ شہر دنیا میں میں فردوس کی شکل ہے۔ اس لیے میری آرزو ہے کہ ہمیشہ گلستانِ مدینہ میں رہوں۔اس وقت دین اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں نے مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوششیں شروع کی ہوئیں ہیں۔ جب کہ وہ خود انسانیت کے دشمن ہیں۔ انہوں نے ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں آزادی رائے کے بہانے گستاخیاں شروع کی ہوئی ہیں۔ جبکہ مسلمانوں اللہ کے سارے پیغمبروں پر ایمان لاتے ہیں۔ان کی شان میں گستاخی کفر سمجھتے ہیں۔یوسف راہی چاٹگامی صاحب نے ” نعتیہ چوکھبیاں” شاعری مجموعہ لکھ کر ایک بہت بڑا کام کیا۔ سب مسلمانوں کو نثر اور نظم میں یہ کام بڑے زور و شور سے کرنا چاہے ۔ تاکہ دشمنوں کے سینوں پر مونگ دلے جائیں۔صاحبو! راقم العروف یوسف راہی چاٹگامی سے ذاتی طورپر واقف ہیں۔
وہ عہد حاضر کے ذہین شاعر ہیں۔ان میں اختراہی شعور پایا جاتا ہے۔اُن کے شعری مجموعہ” نعتیہ چوکھمبیاں” میں سیرت رسولۖ اللہ کی تعلیمات سے بھری ہوئی ہے۔وہ ایک پکے سچے مسلمان ہیں۔ ان کے دل میں سانحہ مشرقی پاکستان اب بھی تازہ ہے۔ جامع مسجد بیت المکرم ڈھاکا مشرقی پاکستان کے نام سے بنی، جامع مسجد بیت المکرم (ٹرسٹ ) لانڈھی ملیر کراچی کی چیئرمین شب کی ذمہ داری اس کا ثبوت ہے۔ الحمد اللہ !راقم العروف بھی اپنے کراچی کے قیام کے دوران چیئرمین جامع مسجد بیت المکرم (ٹرسٹ)اختر کالونی کراچی کی ذمہ داری ادا کرتا رہا ہے۔ یوسف راہی چالیس پنتالیس برس سے شعر کہہ رہے ہیں۔شاعر ،سینئر صحافی،ادیب،کئی رسالوں اخبارات کے مدیر رہے ہیں۔حال میں ماہنامہ زاویہ نگاہ کراچی کے مدیر ہیں۔ اللہ ان کی نئی کاوش ”نعتیہ چوکھمبیان” کو مقبول عام کرے آمین۔