ابراہم لنکن کے بعد جو بائیڈن کی صورت میں ایک نئی آواز فضائوں میں گونجی ہے جس کی نظرمیں سیاسی مخالفت سیاسی دشمنی کا نام نہیں ہے بلکہ سیاست کو سیاست کی حد تک ہی رہنا چائیے۔ امریکہ کی ترقی باہمی دشمنی سے نہیں بلکہ باہمی یگانگت اور محبت سے پروان چڑھ سکتی ہے۔قوم کو انتشار نہیں بلکہ بھائی چارے کی ضرورت ہے۔قوم کو تقسیم کرنے کی بجائے اس کے اتحاد کی جانب پیش قدمی کرنی ہو گی۔رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر قوم کی تقسیم نے امریکہ کو کمزور کیا ہے لہذا اب تقسیم کی نہیں بلکہ باہم مل کر آگ بڑھنے کی ضرورت ہے۔جو بائیڈن نے انسانی حقوق کا جو علم اٹھا رکھا ہے وہی ان کی اصل طاقت ہے ۔خانہ جنگی کے سائے اب بھی امریکہ پر منڈھلا رہے ہیں لیکن نئے امریکی صدر کی متانت، ذہانت،دانش،برداشت اور فراست سے یہ خطرہ ٹل جائے گا۔جب قوم کا لیڈر انتقام اور بدلہ کی بھاونا سے بلند ہو جاتا ہے تو قوم میں نئی روانائی داخل ہو جاتی ہے۔
کوئی قوم انتقام کی روش سے ترقی نہیں کر پاتی۔دنیا میں سب سے بڑی مثال سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفے ۖ کہ انھوں نے اپنے بدترین دشمنوں کو معاف کر کے ایک ایسی نظیر قائم کی جس سے دیکھتے ہی دیکھتے سر زمینِ حجاز نے پوری دنیا کو فتح کر لیا۔نیلسن میڈیلا نے نفرتوں کی آماجگاہ میں عفو و درگز، قومی یکجہتی،مفاہمت اور باہمی یگانگت کا نظریہ پیش کیا تھا جس سے سائوتھ افریکہ ایک بڑی طاقت بن کر ابھرا۔جب کوئی قوم اختلافات کا شکار ہو جاتی ہے تو وہ اندرسے کھوکھلی ہو جاتی ہے ، اس کا رعب و دبدبہ دھیرے دھیرے ختم ہو جاتا ہے اور باہمی منافقت قوم سے اس کی توانائیان چھین کر اسے ضعف پہنچانا شروع کر دیتی ہے ۔ڈولنڈ ٹرمپ نے جس طرح امریکی مفادات کو نقصان پہنچایا اورصدا رتی عہدے کی بے تو قیری کی وہ کسی سے ڈھکا چھپانہیں۔ایک متلون مزاج شخص امریکہ کا صدر بن گیا جو متانت ،وقار اور احترام سے کوسوں دور تھا۔اس کی نجی زندگی چونکہ ایسے اقعات سے بھری پڑی تھی جوغیر شائستگی کا شاہکار تھے اور جن میں رکھ ر رکھائو کا کہیں نام و ناشان تک نہیں تھا۔امریکی صدر کے مدابرانہ پن کی ہلکی سی جھلک بھی ان کی شخصیت میں دیکھی نہیں جا سکتی تھی۔
وہ کھلنڈرے پن کا نمونہ تھے ور اس پر انھیں فخر تھا۔انتخابی نتائج نے ڈولنڈ ٹرمپ کی ایسی ہر سطحی سوچ کر بالکل ٹھکرا کر رکھ دیا ہے۔ان کی شکست ایک ایسی سوچ کی شکست ہے جس میں آمرانہ روش تھی ۔انھوں نے امریکہ کو جس طرح رنگ و نسل کی بنیاد پر تقسیم کیا وہ قابلِ مذمت ہے۔ان کی نظر میں مسلمانوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔وہ ان کا وجود برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں تھا ۔ اس نے ایسے قوانیں مرتب کئے جس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہو تی تھی۔وہ امریکہ کو مسلمانوں کے وجود سے پاک کرنا چاہتا تھا لیکن امریکی عدالتیں اس کی راہ میں پوری جرات سے کھڑی ہو گئیں اور اس کی آمرانہ سوچ کو لگام ڈالی۔اسے اگر چہ اپنے منصوبوں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود بھی وہ گاہے گاہے ایسے فاسد خیالات کا اظہار کرتا رہا جس سے تفرقہ کی بو آتی تھی لیکن اس کی قوم نے اس کی سوچ کو سنجیدہ نہ لیا ۔اس کی ہار انسانیت کی جیت ہے کیونکہ وہ انسانوں کا رنگ و نسل کی بنیاد پر جانچنے کا علمبردار تھا۔ابراہم لنکن نے انسانوں کو غلامی سی آزادی دلائی تھی لیکن اسی ملک میں ڈولنڈ ٹرمپ انسانوں کی گردنوں میں ایک دفعہ پھر غلامی کا طوق پہنانا چاہتا تھا۔موجودہ دور میں شائد ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ روسو نے ایک بار کہا تھا کہ غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر آزادی کی نعمت کو گلے سے لگانا ہو گا کہ اسی میں انسانی عظمت اور احترام کا راز مضمر ہے۔
کیا کوئی تصور کر سکتاتھا کہ ا س کرہِ ارض کا سب سے مضبوط انسان ڈولنڈ ٹرمپ امریکی اقتدار سے بآسانی رخصت ہو جائے گا لیکن ایسا عوام کے ووٹوں سے ممکن ہوا۔ وہ آج بھی ہارنے کے باوجود اپنی شکست تسلیم کرنے کے لئے تیارنہیں ہے۔وہ اب بھی اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتا ہے ۔وہ اب بھی اقتدار کے خواب دیکھ رہا ہے لیکن ووٹ کی ایک پرچی نے اس سے اس کے سارے خواب چھین لئے ہیں ۔اسے اقتدار سے بے پناہ محبت ہے اس لئے وہ اس کے لئے ہاتھ پائوں مار رہا ہے ۔اسے علم ہے کہ ناکامی اس کا مقدر ہو گی لیکن اس کے باوجود اس کی ہوسِ اقتدار رکنے کا نام نہیں لے رہی۔وہ لوگوں کو ریاست کے خلاف بھڑکا رہا ہے لیکن اس کی آواز صدا بصحرا ثا بت ہو گی۔ یہ ہے ووٹ کی اصلی طاقت جس میں ڈولنڈ ٹرمپ جیسے لوگ خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتے ہیں۔امریکی انتخاب میں ١٦ کروڑ سے زیادہ ووٹر تھے لیکن کیا کسی ایجنسی نے مداخلت کی؟ کیا کسی ادارے نے اپنی ٹانگ اڑائی؟ کیاکہیں سے پیسہ فراہم ہوا ؟ کیا کسی نے کوئی سازش رچائی؟ کیا کسی نے کوئی دبائو ڈالا؟کیا کسی کو ڈرایا دھمکایا گیا ؟ کیا کسی کو پارٹیاں بدلنے پر مجبور کیا گیا؟ کیا ڈبے اٹھائے گے؟کیا بیلٹ چھینے گے؟کیا کسی کو جبرا حمائت پر مجبور کیاگیا۔جو کچھ ہوا دن کے اجالے میں ہوا۔ بالکل شفاف اور غیر جانبدارانہ طریقے سے ہوا ۔ایک ایک ووٹ کی اہمیت کو محسوس کیا گیا اوراس کی حفاظت کی گئی۔ہر ووٹ کی گنتی لازم قرار دی گئی ۔
ڈولنڈ ٹرمپ نے بڑا واویلا کیا کہ ڈاک سے ڈالے گے ووٹوں کو ایک خاص وقت کے بعد گنتی سے خارج کر دیا جائے لیکن الیکشن کمیشن نے ایسی کسی بھ درخواست کو در خورِ اعتنا نہ سمجھا اور ایک ایک ووٹ کو شمار کیا تا کہ ووٹ کی عزت مسلمہ ہو جائے۔جو بائیڈن انسانی حقوق کے حوالے سے ا پنا ایک خاص نظریہ رکھتے ہیں۔وہ انتقامی سیاست کے سخت ناقدین میں شمار ہوتے ہیں۔وہ سیاسی بنیادوں پر بنائے گے مقدمات کے سخت مخالف ہیں۔وہ سیاسی مخالفین کو اذیتیںدینے اور ان سے غیر انسانی سلوک کو انتہائی برا سمجھتے ہیں ۔ وہ قانون کی حکمرانی کے علمبردار ہیں لیکن احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین کو جیلوں میں نظر بند کرنا انھیں نا پسند ہے ۔ان کی پاکستانی سیاست پر بڑی گہری نظر ہے۔وہ پہلے بھی آٹھ سالوں تک نائب صدرارت کے عہدے پر متمکن رہے ہیں لہذا انھیں گمراہ نہیں کیا جا سکتا۔آصف علی زرادی سے ان کی قربت کا زمانہ معترف ہے۔
پی پی پی اور جو بائیڈن کے درمیان انسانی حقوق کے حوالے سے ایک مضبوط تعلق قائم ہے اور یہ تعلق پاکستان میں انتقامی سیاست کو کمزور کرنے کا باعث بنے گا۔پی ٹی آئی حکومت نے احتساب کے نام پر جو طوفانِ بد تمیزی برپا کیا ہوا ہے شائد اس کے خا تمے کا وقت آن پہنچا ہے۔ہر وہ سیاست دان جو حکومت کے خلاف لب کشائی کرتا ہے اور اس پر تنقید کرنے کی جرات کرتا ہے اس پر مقدمات دائر کر کے اسے زندانوں کی نذر کر دیا جاتا ہے۔میری ذاتی رائے ہے کہ جو بائیڈن کی فتح سے اپوزیشن کو سانس لینے کی مہلت ملے گی ۔ انھیں جس طرح سے جیلوں میں گھسیٹا جا رہا ہے اس سے انھیں نجات کی راہ مل جائے گی۔اربوں کی کرپشن کی کہانیاں صرف ٹیلی ویژن پر سنائی دیتی ہیں۔ہر روز اپوازیشن پر نئے مقدمات دائر ہوتے ہیں اور انھیں ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جا تا ہے ۔وہ کئی کئی ماہ جیل کی ہوا کھاتے ہیں لیکن اس کے باوجود انھیں کسی مقدمہ میں کوئی سزا نہیں ہوتی کیونکہ سارے مقدمات جھوٹ ،انتقام اور بد نیتی پر قائم ہو تے ہیں۔جو بائیڈن کے انتخاب سے ایک نئی روائیت کا آغاز ہونے والا ہے۔انسانی حقوق کی علمبرداری کا وقت اب بالکل قریب ہے جس سے موجودہ حکمران خائف ہیں۔،۔
Tariq Hussain Butt
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال