عراق (اصل میڈیا ڈیسک) آج سے دو سال پیشتر عراق میں سامنے آنے والی ایک ستم رسیدہ بچی کی تصویر نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ عرب ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی عراقی بچی کی تصویر کے بعد اسے ‘عراق کی مونا’ لیزا کا لقب دیا گیا تھا۔ بچی کی روتے ہوئے مسکراہٹ کی تصویر نے درد دل رکھنے والے ہر فرد کو رلا دیا تھا۔
دہشت گرد گروہ ‘داعش’ کے ظلم سے فرار ہونےوالی بچی نے حال ہی میں العربیہ چینل کے برادر ٹی وی چینل الحدث کے ساتھ بات چیت کی۔ اس نے بتایا کہ وہ ان دنوں عراق کے شہر موصل میں اپنے خاندان کے ساتھ مقیم ہے۔
عالمی شہرت حاصل کرنے والے عراق کی ننھی مونا لیزا کا اصل نام’سبا’ ہے۔ اس کئ وائرل تصویر 16 مارچ 2017ء کو اس وقت لی گئی تھی جب موصل میں گھمسان کی جنگ جاری تھی۔ اس کا کہنا ہے کہ میں اس وقت جنگ اور مسلسل بمباری سے خوف زدہ تھی اور اسی خوف کے مارے رو رہی تھی۔
تین سال پرانی تصویر کے ساتھ اب اس کی ایک تازہ تصویر ہے۔ یہ دونوں تصاویر فوٹو جرنلسٹ علی الفہداوی نے بنائیں۔ الفہداوی خبر رساں ادارے ‘رائیٹز’ کے لیے کام کرتے ہیں۔
سبا نے بتایا کہ جب ان کے علاقے میں شدید بمباری شروع ہوئی تو وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ وہاں سے فرار ہو رہی تھی کی اس کا سامنا صحافی الفہداوی کے ساتھ ہوگیا۔ میں اس وقت رو رہی تھی۔ فہداوی نے کہا کہ مسکراتے ہوئے میرے کیمرے کی طرف دیکھو۔
صحافی الفہداوی کا کہنا ہے کہ بکھرے بال، ننگے پائوں، روتے اور بھاگتے ہوئے بچی کو دیکھ کر مجھے بہت صدمہ پہنچا، بچی کے کپڑے مٹی سے اٹے ہوئے تھے۔ وہ تیزی کے ساتھ بھاگ رہی تھی۔ میں نے اسے روکا اور اس کی تصویر بنائی۔ اس وقت اس کی آنکھوں میں آنسو اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی اور ایک بچی کے چہرے پر دکھ اور خوشی کے ایک ساتھ جذبات ہرایک کو اپنی طرف کھینچ لینے کے لیے کافی تھے۔
ایک سوال کے جواب میں الفہداوی نے کہا کہ میں نے بچی کو دوبارہ تلاش کیا تاکہ اس کے آج کے حالات کا پتا چلایا جاسکے۔ اس نے بتایا کہ میںنے بچی کو بہت تلاش کیا۔ میرے صحافی دوستوں نےبھی اس کی تلاش میں میری مدد کیمگر ہمیں اس میں کامیابی نہیں ملی۔ یہاں تک کہ ہمیں بچی کی تلاش میں مدد کے لیے انعام مقرر کرنا پڑا۔
اس نے کہا کہ تین ماہ کی تلاش بسیار کےبعد انہیں فیس بک پر ایک پیج ملا۔ اس صفحے پر سبا کی تصویر بھی موجود تھی۔ رابطہ کرنے پر پتا چلا کہ وہ سبا کا چچا ہے۔ مجھےبہت خوشی ہوئی۔ ہمیں فیس بک کے ذریعے پتا چلا کہ سبا کا خاندان موصل میں بادوش کے مقام پر ہے۔
خیال رہے کہ سنہ 2014ء سے 2017ء تک ‘داعش’ نے شمالی عراق کے علاقوں نینویٰ اور موصل پر قبضہ کر لیا تھا۔