ادیس آبابا (اصل میڈیا ڈیسک) ایتھوپیا کے شمالی علاقے تیگرائے میں گزشتہ چند دنوں سے مسلح جھڑپیں جاری ہیں۔ اب اس علاقے کے باغیوں نے ایتھوپیا کے شہروں پر راکٹ داغنا شروع کر دیے ہیں۔
افریقی ملک ایتھوپیا کے دارالحکومت ادیس آبابا سے حکومت نے اعلان کیا ہے کہ افراتفری اور انتشار زدہ شمالی علاقے تیگرائے کے مسلح باغیوں نے امہارا کے شہروں کو نشانہ بنایا ہے۔
تیگرائی بحران میں جنگی صورت حال چار نومبر سے پیدا ہے، جب ایتھوپیا کی افواج نے تیگرائی محاذِ آزادی نامی تنظیم کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کیا۔ اس فوجی آپریشن کو شروع کرنے کا حکم امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والے وزیر اعظم آبی احمد نے دیا تھا۔
ادیس آبابا سے کیے گئے اعلان کے مطابق تیگرائی باغیوں کی جانب سے راکٹ بحیردار اور غوندار کے بڑے شہروں پر داغے گئے۔ یہ دونوں وفاقی صوبے امہارا کے شہر ہیں اور شمالی تیگرائی علاقے کے قدرے نزدیک ہیں۔ بحیر دار نامی شہر اس ایتھوپیائی صوبے کا دارالحکومت ہے۔ یہ راکٹ تیرہ نومبر بروز جمعہ کی رات داغے گئے تھے۔ ان راکٹوں سے ان شہروں کے ہوائی اڈے کو بھی کسی حد تک نقصان پہنچا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ امہارا کے مقامی سکیورٹی اہلکار بھی تیگرائے میں ایتھوپیا کی فوج کے ساتھ لڑائی میں شریک ہیں۔
ڈھائی لاکھ سے زائد مسلح باغیوں کی مرکزی تنظیم کے سربراہ دیبریستیون گیبر میشل کا کہنا کہ کہ امہارا پر کیے جانے والے راکٹ حملوں سے وہ لاعلم ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تاہم جو ایئر پورٹ اُن کے علاقے پر حملوں کے لیے استعمال ہو رہا ہے، وہ یقینی طور پر کسی بھی حملے کا جائز ہدف ہو سکتا ہے۔ اس دوران محاذِ آزادی تیگرائے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ بحیر دار اور غوندار کے ہوائی اڈے سے کیے جانے والے فضائی حملوں کے جواب میں راکٹ داغے گئے ہیں۔ یہ بیان مقامی ٹیلی وژن پر نشر کیا گیا۔
ایتھوپیا کے اس علاقے کے شہر غوندار کے مقامی ہسپتال کے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اب تک دو افراد کی نعشیں پہنچائی گئی ہیں۔ طبی ذرائع نے ان ہلاکتوں کے علاوہ ایک درجن سے زائد زخمیوں کی تصدیق کی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ہلاک اور زخمی عام شہری نہیں ہیں۔ امہارا کی مقامی حکومت کے بیان میں واضح کیا گیا کہ راکٹ گرنے کے بعد ہونے والے دھماکوں سے تھوڑی دیر کے لیے بے چینی اور افراتفری ضرور پھیلی لیکن اس صورتِ حال پر چند منٹوں کے بعد قابو پا لیا گیا۔
ایتھوپیا کے وزیر اعظم کے حکم پر یہ جنگی کارروائی شروع کی گئی ہے۔ ایسا امکان سامنے آیا ہے کہ یہ لڑائی ایتھوپیا کے دوسرے علاقوں میں بھی پھیل سکتی ہے۔ لڑائی میں فوج کو جنگی طیاروں کی مدد بھی حاصل ہے۔ اس تناطر میں وزیر اعظم آبی احمد کا کہنا ہے کہ حکومتی جنگی طیارے صرف باغیوں اور ان کے حامیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
احمد کے مطابق بمباری کا مقصد باغیوں کے اسلحے کے گوداموں اور جنگی سامان کے ذخیروں کو تباہ کرنا ہے۔ اس فوجی ایکشن کے شروع ہونے کے بعد ہزاروں شہری ہمسایہ ملک سوڈان میں مسلسل داخل ہو رہے ہیں۔ عالمی امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ اس بحران سے دو لاکھ سے زائد افراد کو نقل مکانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔