اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان کی وفاقی حکومت اور انتظامیہ نے اسلام آباد میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے مطالبے کے ساتھ دھرنا دینے والی تحریک لبیک کے سربراہ خادم حسین رضوی کے ساتھ مذاکرات کے بعد مبینہ طور پر چار نکاتی معاہدہ کیا ہے۔ مذاکرات کی کامیابی کے چند گھنٹوں بعد اس دھرنے کو ختم کر دیا گیا۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق منگل کو جڑواں شہر اسلام آباد اور راولپنڈی، جس کی کچھ اہم شاہراہیں اس دھرنے کی وجہ سے بند کر دی گئی تھیں، میں ٹریفک معمول پر آچکی ہے جبکہ موبائل اور انٹرنیٹ سروس بھی بحال کر دی گئی ہے۔
حکومت کی طرف سے پیر کی شام وزیرِ مذہبی امور نور الحق قادری کی قیادت میں حکومتی ٹیم نے تحریکِ لبیک کی قیادت سے ’کامیاب‘ مذاکرات کیے۔
حکومتی ترجمان کا کہنا تھا کہ ان مذاکرات میں طے پانے والی شرائط کا اعلان تحریک لبیک کے سربراہ خادم رضوی خود کریں گے تاہم شب تین بجے کے قریب ان کے خطاب سے پہلے ہی ان کی جماعت کی جانب سے میڈیا کے ساتھ مبینہ معاہدے کی کاپی شیئر کی گئی۔
ترجمان وزارت مذہبی امور عمران صدیقی نے بی بی سی کو بتایا کہ وزیر مذہبی امور کو مذاکرات کا ٹاسک خود وزیر اعظم عمران خان نے دیا تھا جبکہ مذاکرات میں وزیر داخلہ بریگیڈیئر سید اعجاز شاہ، وزیر اعظم کے مشیر برائے داخلہ شہزاد اکبر، سیکریٹری داخلہ اور کمشنر اسلام آباد عامر احمد علی بھی شامل تھے۔
اتوار کو تحریکِ لبیک نے فرانس میں متنازع خاکوں کی اشاعت کے خلاف راولپنڈی میں لیاقت باغ سے فیض آباد تک ‘ناموسِ رسالتِ ریلی’ نکالی تھی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی تھی۔ یہ ریلی اتوار کو رات گئے فیض آباد پل پر پہنچی جہاں اس کے شرکا نے دھرنا دے دیا تھا۔
یہ وہی مقام ہے جہاں اس جماعت نے 2017 میں بھی دھرنا دیا تھا اور حکومت سے ایک معاہدے کے بعد دھرنا ختم کیا گیا تھا۔
حکومت-لبیک ’معاہدے‘ کی شرائط کیا ہیں؟
دھرنا ختم ہونے سے پہلے خادم حسین رضوی نے تقریباً آدھے گھنٹے تک خطاب کیا جس کے بعد شرکا گھروں کو واپس لوٹ گئے
تحریک لبیک کی جانب سے شیئر کردہ اس مبینہ معاہدے کے مطابق، مذاکرات میں ان چار نکات پر اتفاق ہوا:
1 حکومت دو سے تین ماہ کے اندر پارلیمنٹ سے قانون سازی کے بعد فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرے گی۔ 2 فرانس میں پاکستان کا سفیر بھی نہیں لگایا جائے گا۔3 تمام فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ 4 تمام کارکنان کی رہائی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات نے ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ کچھ گھنٹوں تک اسلام آباد کی تمام سڑکیں ٹریفک کے لیے کھول دی جائیں گی۔
اس سے قبل پیر کی شام نجی ٹی وی چینل سما کے پروگرام میں بات چیت کرتے ہوئے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے اپنی ہی حکومت کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ ان مظاہرین سے بات چیت کرے اور انتظامیہ اور پولیس اس معاملے کا پر امن حل نکالے۔
انھوں نے کہا کہ ’اِن لوگوں سے بات چیت کی جائے اور بات چیت ہی بالآخر مسائل کا حل ہے، طاقت کا استعمال نہیں ہونا چاہیے۔‘
اتوار کی صبح سے وقفے وقفے سے ان مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔
فیض آباد میں ان مظاہرین کی تعداد میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب پولیس نے ان پر پیر کو شیلنگ کی۔
پولیس نے راولپنڈی اور اسلام آباد کو ملانے والے متعدد راستوں کو کنٹینرز لگا کر بند کیا جبکہ دو دن سے اسلام آباد اور راولپنڈی میں موبائل فون سروس بھی جزوی طور پر معطل رہی ۔ مذاکرات کی کامیابی کی خبریں چلنے کے فوراً بعد ہی موبائل سروس بحال کر دی گئی۔
اس ریلی اور دھرنے کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں جن میں درجنوں افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ملیں۔ زخمیوں میں ٹی ایل پی کے کارکن اور پولیس اہلکار دونوں شامل ہیں۔
مقامی پولیس کا دعویٰ ہے کہ ریلی میں شریک مظاہرین نے نہ صرف مری روڑ پر واقع دکانوں میں توڑ پھوڑ کی بلکہ وہاں پر موجود پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ بھی کیا تھا۔ راولپنڈی پولیس نے 200 سے زیادہ مظاہرین کو گرفتار کرنے کا دعویٰ بھی کیا۔
فیض آباد میں ہونے والے دھرنے کے باعث کئی راستے بند ہیں۔ اس سے راولپنڈی اور اسلام آباد کے رہائشیوں کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے۔
دھرنے کی وجہ سے اسلام آباد ہائی وے کو کھنہ پل کے مقام پر بند کر دیا گیا جبکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کو ملانے والے دیگر راستوں پر بھی ناکے لگائے گئے یا انھیں کنٹینر رکھ کر بند کیا گیا۔
دھرنے کے مقام کی جانب جانے والے تمام راستے بھی بند ہیں جبکہ اسلام آباد کی انتظامیہ نے ٹریفک کے لیے متبادل راستوں کی تفصیلات جاری کیں۔
اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات نے اپنی ایک ٹویٹ میں متبادل راستوں کے بارے میں بتایا اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ ضلعی انتظامیہ ان راستوں کو کلیئر کروانے کی کوشش کر رہی ہے۔
اسلام آباد پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ریڈ زون کو مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے اور خاص طور پر ڈپلومیٹک انکلیو کی طرف جانے والے راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ اس علاقے میں پولیس کے علاوہ رینجرز کے اہلکاروں کو بھی تعینات کیا گیا ہے۔
پیر کو راستوں کی بندش کی وجہ سے جہاں بچوں کی ایک بڑی تعداد سکول نہیں جا سکی وہیں پاک سیکریٹریٹ سمیت دیگر اہم نجی و سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے لوگ بھی کام پر جانے سے قاصر رہے۔
راولپنڈی، اسلام آباد کے بیشتر علاقوں میں اتوار کی صبح سے موبائل فون سروس بند کی گئی تھی جو پیر کی صبح جزوی طور پر بحال کر دی گئی ہے تاہم جلد ہی اسے دوبارہ بند کر دیا گیا۔ دھرنے کے مقام پر بھی موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس دونوں معطل ہیں جبکہ جڑواں شہروں میں انٹرنیٹ کی سروس عمومی طور پر متاثر رہی۔
اتوار کو ریلی کے دوران جماعت کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں اور پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کے دوران بھاری مقدار میں آنسو گیس بھی استعمال کی تھی۔
ٹی ایل پی کا دعویٰ ہے کہ ریلی کے دوران پولیس کی جانب سے ہونے والی آنسو گیس شیلنگ اور ربڑ کی گولیاں لگنے سے اُن کے 50 کارکن زخمی ہوئے ہیں تاہم پولیس حکام نے اس کی تردید کی ہے۔ ادھر پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے اہلکاروں پر پتھراؤ کیا جس سے درجن بھر اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔
راولپنڈی اور اسلام آباد کو ملانے والے دیگر راستوں پر بھی ناکے لگا دیے گئے ہیں یا انھیں کنٹینر رکھ کر بند کیا گیا ہے
دھرنے میں موجود تحریک لبیک کے ترجمان قاری محمد زبیر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے الزام لگایا کہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب سے راولپنڈی پولیس اور اسلام آباد پولیس کی جانب سے شیلنگ کا سلسلہ جاری ہے اور رات گئے سے اب تک صرف دو گھنٹوں کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ رکی۔
اُنھوں نے کہا کہ شیلنگ کی وجہ سے ٹی ایل پی کے 50 کے قریب کارکن زخمی ہوئے ہیں۔ اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے کارکن پُرامن تھے لیکن پولیس نے ان پر آنسو گیس کی شیلنگ کر کے اُنھیں احتجاج کرنے اور دھرنا دینے پر مجبور کر دیا۔
تاہم راولپنڈی اور اسلام آباد میں پولیس کے حکام اس دعوے کی تردید کرتے ہیں اور ان کا کہنا کہ مظاہرین نے ڈیوٹی پر تعینات پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ سوشل میڈیا پر بعض تصاویر میں پولیس کے زخمی اہلکاروں کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ تحریک لیبک کی مقامی قیادت نے اس احتجاجی ریلی کے انعقاد کے سلسلے میں ضلعی انتظامیہ سے مذاکرات تو ضرور کیے تھے لیکن انھوں نے اس ریلی کی اجازت لینے سے متعلق درخواست نہیں دی تھی۔
اہلکار کے مطابق اس جماعت کے مقامی رہنماؤں نے راولپنڈی پولیس کے ذمہ داران سے بھی ملاقات کی تھی لیکن پولیس حکام کو بھی اس جماعت کی مقامی قیادت نے یہ تحریری یقین دہانی نہیں کروائی کہ وہ پیغمبرِ اسلام کے خاکوں سے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروا کر ریلی کو ختم کردیں گے۔
اتوار کی شب تحریک لبیک کی ریلی فیض آباد پہنچنے پر انتظامیہ نے فیض آباد سمیت گرد نواح کی سٹریٹ لائٹس بند کر دی تھیں۔
ممتاز خان نے جو کہ راولپنڈی کے آریہ محلے کے رہائشی ہیں نے صحافی محمد زبیر کو بتایا تھا کہ پولیس اور مظاہرین کے درمیان اتوار کی شام کے بعد سے شدید جھڑپیں شروع ہوئی تھیں۔ اس دوران پولیس کی جانب سے آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی تھی۔
پولیس اور تحریک لبیک کے کارکنوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں پولیس کی جانب سے فائر کیے گئے آنسو گیس کے شیل مقامی آبادی اور بے نظیر بھٹو ہسپتال راولپنڈی میں بھی گرے۔ جس کے باعث گھروں میں موجود خواتین، بچوں اور بزرگ افراد سمیت ہسپتال میں مریضوں کے ساتھ ساتھ تیمارداروں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
اس جلوس کے قریب موجود مقامی صحافی ملک ظفر اقبال کے مطابق جب مظاہرین اتوار کی شام کے وقت لیاقت باغ سے چلے تو اس موقع پر پولیس نے جلوس کو روکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ملک ظفر اقبال کے مطابق خادم حسین رضوی کے بیٹے سعد رضوی بھی جلوس میں موجود تھے جبکہ مظاہرین ڈنڈوں اور پتھروں سے لیس تھے۔
راولپنڈی پولیس کی سپیشل برانچ کے ایک اہلکار کے مطابق گذشتہ رات لیاقت باغ اور اس کے قریبی علاقوں میں مظاہرین کی تعداد چار ہزار سے زیادہ تھی۔ اہلکار کے مطابق صورتحال کو دیکھتے ہوئے اضافی نفری طلب کرنے سے متعلق پولیس کے اعلیٰ حکام سے کہا گیا تھا۔
راولپنڈی کے علاقے لیاقت باغ کی قریبی آبادی کے رہائشی عرفان تنولی نے صحافی محمد زبیر کو بتایا کہ ’کل سے انتظامیہ کی جانب سے کھڑی رکاوٹوں کے سبب ہم لوگ اپنے گھروں میں عملاً قید ہو گئے۔ بجلی کی عدم موجودگی کی بنا پر انٹرنیٹ وائی فائی کنکشن بھی کام نہیں کر رہے۔‘
لیاقت باغ کے رہائشی علاقے میں موجود ایک اور مقامی شخص نصیر بھٹی کا بھی کہنا تھا کہ ’تحریک لبیک کے کارکنان ڈنڈوں اور پتھروں سے مسلح ہیں وہ پولیس کی شیلنگ کے جواب میں پتھراؤ کر رہے ہیں۔ پہلے تو پولیس ان پر شیلنگ کرتی رہی تھی مگر بعد ازاں پولیس نے بھی جوابی پتھراؤ کیا۔‘
جب مظاہرین اتوار کی شام کے وقت لیاقت باغ سے چلے تو اس موقع پر پولیس نے جلوس کو روکنے کی کوشش نہیں کی تھی
اس سے قبل ریلی کی کوریج کے لیے آئے ہوئے مقامی صحافی بابر ملک کا کہنا تھا کہ جونہی وہ حالات کا جائزہ لینے کے باہر نکلے تو وہاں پر موجود تحریک لبیک کے کارکنوں نے اُنھیں پکڑ لیا اور ان سے موبائل بھی چھین لیا تھا۔
بابر ملک کے بقول ان مظاہرین نے ان کا موبائل پر بیان ریکارڈ کیا اور کہا کہ وہ شہر کی صورتحال کے بارے میں بتائیں اور اگر ان کی ایک بات بھی غلط ثابت ہوئی تو اُنھیں جسمانی طورپر نقصان پہنچایا جائے گا۔
اُنھوں نے کہا کہ جب وہ بیان ریکارڈ کروا رہے تھے تو ان کے پیچھے تحریک لبیک کے کارکن ڈنڈے لے کر کھڑے تھے۔
سنہ 2017 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسی جماعت کی درخواست پر فیض آباد دھرنا کیس میں اپنا فیصلہ دیتے ہوئے اسے ریاست کے خلاف اقدام قرار دینے کے ساتھ ساتھ ایسے عمل کو ‘دہشت گردی’ سے منسوب کیا تھا۔
سنہ 2019 میں سپریم کورٹ کے ریمارکس: وردی میں ملبوس اہلکاروں نے فیض آباد دھرنے کے شرکا میں رقوم تقسیم کیں اور یہ کوئی اچھا منظر نہیں
اس دھرنے کے خلاف درخواست کی سماعت کرتے ہوئے اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنا ریمارکس میں کہا تھا کہ ‘ملک کے خفیہ ادارے اس تاثر کو زائل کریں کہ وہ ان دھرنا دینے والوں کی حمایت کر رہے ہیں۔’
اسی دھرنے کے بارے میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ ‘وزارت دفاع ان فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کریں جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی معاملات میں مداخلت کی ہے۔’
اس فیصلے میں ایک حاضر سروس میجر جنرل کی طرف سے مظاہرین میں پیسے تقسیم کرنے کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ سے کہا تھا کہ وہ ان مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آتشیں اسلحہ کا استعمال نہ کریں۔