امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) نیٹو کے سربراہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے افغانستان سے تیزی سے امریکی فوجی انخلاء کے لیے متنبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ جلد بازی ہوگی۔ امریکی انتظامیہ نے کرسمس تک اپنی فوج کو واپس بلانے کی بات کہی تھی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک امریکی اعلی افسر کے حوالے سے خبر دی ہے کہ صدر ٹرمپ کی اس منصوبے سے کہ کرسمس تک افغانستان سے امریکی فوجیوں کا کسی طرح انخلاء ہوجانا چاہیے، نیٹو کے دیگر اتحادیوں میں افرا تفری کا ماحول ہے اور اس پر ایک دوسرے سے صلاح و مشورے کا عمل جاری ہے۔
اس دوران برسلز میں نیٹو کی ترجمان اوانا لنگسکیو کا کہنا ہے کہ افغانستان کے تنازعے کے حوالے سے نٹیو اتحاد کے موقف میں ابھی تک ایسی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ نیٹو کی ویب سائٹ کے مطابق افغانستان میں 38 ممالک پر مشتمل اتحاد نیٹو کے تقریباً 0 1600 فوجی موجود ہیں، جس میں سے نصف تعداد امریکی فوجیوں کی ہے۔
لیکن نیٹو کی ترجمان نے پیر کو اپنے بیان میں یہ تعداد 12 ہزار سے بھی کم بتائی۔ انہوں نے نیٹو کے سکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ”ہم اپنی موجودگی برقرار رکھیں گے۔ نیٹو کا کوئی بھی اتحادی بلا ضرورت وہاں رکنا نہیں چاہتا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہم نے اتنی قربانیاں دیکر جو کامیابی حاصل کی ہے اسے کی پاسبانی بھی چاہتے ہیں۔”
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں وزیر دفاع مارک ایسپر کو برخاست کر کے کرس ملر کو اپنا کارگزار وزیر دفاع متعین کیا تھا اور نیٹو کے سکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے ان سے بھی بات چیت کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق کرس ملر نے صدر ٹرمپ سے شام اور افغانستان سے مکمل انخلا کے بارے میں بات چیت کی کوشش کی تھی۔
جرمنی میں تقریباﹰ 35 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں جن کی اکثریت ملک کے مغرب اور جنوب میں ہے۔ لیکن اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس 75 سالہ پرانے تعلق میں تبدیلیاں لانے کے خواہشمند ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے جرمنی سے بارہ ہزار امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔ فوج کی واپسی کا یہ عمل امریکا اور جرمنی کے مابین فوجی اتحاد کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی ایک قرار داد کے تحت 2015 میں افغانستان میں ‘ریزولوٹ سپورٹ’ کے تحت نیٹیو افواج کو تعینات کیا گیا تھا۔ گرچہ اس میں نصف فوجی امریکی ہیں تاہم نصف کا تعلق دیگر مختلف ممالک سے ہے اس لیے افغانستان سے مکمل انخلاء کا عمل قدرے پیچیدہ ہے۔
نیٹو کی ترجمان اوانا لنگسکیو کا کہنا ہے کہ نیٹو کے اتحادی افواج کا انحصار امریکی لاجیسٹکس پر رہا ہے اور اس مشن کے حوالے سے، ”زمینی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم آہنگی سے صلاح و مشورے کا عمل جاری رہیگا۔”
ادھر امریکی محکمہ دفاع پنٹاگون کا کہنا ہے کہ کرس ملر اور اسٹولٹن برگ نے، ”افغانستان اور عراق میں نیٹو مشنوں کی حمایت میں ہم آہنگی کی مسلسل اہمیت پر تبادلہ خیال کیا ہے۔”حالیہ مہینوں میں دیکھا گیا ہے کہ افغانستان میں تشدد کا سلسلہ جاری ہے جبکہ قطر میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں کوئی خاص پیش رفت بھی نہیں ہوئی ہے۔
گزشتہ ماہ اپنی انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ افغانستان میں جو بہادر امریکی فوجی اپنی خدمات انجام دیتے رہے ہیں ان میں جو تھوڑے بہت وہاں بچے ہیں وہ بھی کی کرسمس تک اپنے گھر واپس ہوجائیں گے۔
موجودہ کارگزار امریکی وزیر دفاع کرس ملر نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ جو امریکی فوجی بیرونی ممالک میں تعینات ہیں وہ اپنے گھر واپس آجائیں۔ حالانکہ انہوں نے اپنے بیان میں اس کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں کیا کہ کب تک ان کی واپسی ہوگی۔