اس دولت کے حصول کے لیئے انسان نے روز اول سے کیا کیا پاپڑ ہیں جو نہیں بیلے کہیں اپنے رشتے قربان کر ڈالے کہیں اپنی محبتیں بیچ ڈالیں اور کہیں دوسروں کے اعتبار کو چور چور کیا ۔ لیکن اس کے بدلے کیا پایا بہت سی بے سکونی، بہت سا درد اور بہت سی بدعاوں کے ساتھ مزید اور کا بہت سا لالچ … کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ حرص کا پیٹ بس قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔
دولت کمانے کا شوق جب ایک حد سے بڑھ جاتا ہے تو ایک مرض اور ایک جنون کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اسی جنون میں لوگ کیسے کیسے ناجائز اور غیر قانونی کام اس کا انجام سوچے بنا ہی سرانجام دے ڈالتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ گھناونی مثالیں ہمیں دکھائی دیتی ہیں منشیات کی خرید و فروخت اور سمگلنگ کی صورت میں۔۔
گذشتہ دنوں ایک صاحب نے ایک اور اعتبار کا چورا بناتے ہوئے کمال دکھا دیا ۔ ایئر پورٹ پر ایک صاحب کو کسی سبب روک کر تلاشی کے دوران چالیس سے زیادہ شادی کارڈز لیجانے پر پوچھا گیا کیونکہ وہ بکس کی صورت میں بنے ہوئے تھے اور کچھ وزنی بھی تھے ۔ سوال و جواب میں آفیسر کو کچھ بات کھٹکی تو انہوں نے وہ کارڈ الٹ پلٹ کر دیکھا ۔ ویسے کارڈذ آجکل شادیوں پر اکثر لوگ بنواتے ہیں ۔ لیکن اس کا وزن زیادہ محسوس ہونے پر آفیسر نے ایک کارڈ کو چاقو سے چاک کرنا شروع کیا تو اس وقت حیرت کی انتہاء نہ رہی جب اس کے اوپر کی پرت کے اندر سے بڑی صفائی کیساتھ سفید رنگ کا پاوڈر برابر سائز میں بڑی چالاکی سے پیک کیا گیا تھا۔
اس شک پر باقی سبھی کارڈز کو ضبط کر کے کھولا گیا تو سبھی میں 125 گرام کی فی کارڈ کے حساب سے برامدگی ہوئی۔ آپ سوچیئے اس کے بعد وہ معصوم لوگ جو واقعی سیدھے سادھے کارڈز یا کتب لیکر جاتے ہیں وہ بھی کس قدر پابندیوں اور مسکلات کا شکار ہو جائینگے ۔ قوانین ہماری ہی حفاظت کے لیئے بنائے جاتے ہیں لیکن ہمیں میں سے کچھ کالی بھیڑیں ہم سب کی زندگیوں کو اس وقت تنگ کر دیتی ہیں جب ان کی قانون شکنی یا لالچ کی سزا باقی ان تمام لوگوں کو بھگتنی پڑتی ہے جن کے خیال سے بھی اس بات کا گزر نہیں تھا ۔ اپنی زندگی سے آر یا پار کا کھیل کھلینے والے خود تو ساری زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزاریں گے ہی ، باقی لوگوں کے لیئے بھی قوانین کی سختی کے طور پر گناہگار ہونگے۔
کیا ہے یہ منشیات کا دھندہ ۔ دوسرے کو موت بیچ کر اپنے لیئے عیش و عشرت خریدنے کا جنون ۔ ۔ کسی کی لاش پر کھڑے ہو کر جام لنڈھانے کا مرض ۔ اپنے ہی دوستوں اور عزیزوں کو سامان زیادہ ہے زرا پکڑ لیجیئے یا دیدیجیئے کہہ کر اس کی زندگی کو جوئے کا پانسا بنا دینے کا خوفناک کھیل ۔ جو شخص پانسا بن گیا اس کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے آپ پر اعتبار کر لیا ۔ آپ کو مجبور سمجھ کر آپ کی مدد کرنے کی حامی بھر لی ۔ اب اسے اس بات کی ایسی عبرت ناک سزا دے دی جائے کہ آئندہ وہ تو کیا اس کے ارد گرد بسنے والے بھی کسی کیساتھ نیکی کرنے کا سوچیں گے بھی نہیں۔
کبھی تو حیرت ہوتی یے جب ایک خاتون کسی لڑکی یا خاتون کو یہ کہہ کر مدد طلب کرے کہ مجھے واش روم جانا یے ذرا میرا گود کا بچہ تو پکڑ لیجیئے ۔ بھلا وہ کونسی ماں ہو گی جو اپنا گود کا شیرخوار بچہ کسی اجنبی کو یوں پکڑا کر جانے کا رسک لے گی۔ لیکن دماغ کی گھنٹی بجائیے اور ہوشیار ہو جائیے کہ وہ بچہ اس کا ہو ہی نہی سکتا ۔ ہو سکتا ہے وہ کسی مردہ بچے کے وجود میں کچھ ڈال کر لیجا رہی ہے۔
اگر وہ بچہ زندہ ہے تو کیا وہ کسی کا بچہ اسمگل کر رہی ہے ؟ اور اگر آپ سلامتی سے امیگریشن سے نکل گئے تو آپ سے بچہ وصول کر لیا جائیگا ورنہ بصورت آپ کی گرفتاری کے وہ چپکے سے کھسک لے گی یا لینگے۔ بہت احتیاط کیجیئے۔ کسی بھی صورت میں اپنا سامان کسی کو نہ دیجیئے اس کے کسی بھی کونے میں کچھ بھی ڈال کر آپکو مشکل میں ڈالا جا سکتا ہے ۔ اور لیجیئے مت ورنہ آپ خود ہی اپنی مشکل کے موجب ہونگے۔
دوران سفر کسی بھی مسافر کو اپنے ذاتی حالات اور معاملات سے باخبر مت کیجیئے ۔ اپنے گھریلو معاملات پر گفتگو مت کیجیئے ۔ اپنے پاس موجود کیش زیورات یا دستاویزات کا ذکر یا معائنہ مت کیجیئے ۔ کسی سےکھانے کی کوئی چیز لیکر کھانے کی غلطی مت کیجیئے ۔ یاد رکھیئے موت کے سوداگر نہ تو ایمان رکھتے ہیں، نہ دل رکھتے ہیں اور نہ ہی جذبات ۔ یہ دولت کے حصول کے لیئے سانپ جیسی فطرت رکھتے ہیں جو وقت پڑنے پر اپنے انڈے بھی پی جاتا ہے اور بچے بھی کھا جاتا ہے۔