کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں
تحریک لبیک یارسو ل اللہ کے مرکزی امیر علامہ خادم حسین رضوی جو اقبال کا شاہین، اسلام کا سپاہی، ملک کا محافظ اور دنیائے اسلام کا غیرت و حمیت کا پیکرو راہنما تھادنیافانی سے دار بقا کی طرف چلا گیارضوی صاحب علامہ اقبال کے شعروں کی ایسی تشریح ایسے کیا کرتے تھے کہ ایک عام آدمی بھی خودی کے فلسفہ کو بخوبی سمجھ جاتا تھا اور انکی تقریر علامہ اقبال کے شعروں کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی تھی قران مجید کی ایک ایک آیت انکو ایسے یاد تھی جیسے بچپن میں ہمیں پہاڑے یاد ہوا کرتے تھے اپنی تقریروں میں جب وہ قرآن مجید کی آیت ترجمہ اور پھر علامہ اقبال کے شعر سناکر تفسیر بیان کرتے تو انکے سامنے بیٹھا ہوا لاکھوں کا مجمع بھی لبیک لبیک کے ایسے نعرے لگاتا کہ جذبہ ایمانی پیدار ہو جاتا جب تحریک لبیک یارسول اللہ کی بنیاد رکھی گئی اور پھر مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تو اس وقت تحریک کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات پیر اعجاز اشرفی صاحب سے میں نے رضوی صاحب کا انٹرویو کرنیکی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے اگلے ہی دن رضوی صاحب سے وقت لیکر ہمیں بتا دیا میں اپنے دو دوستوں کے ہمراہ جب رضوی صاحب کے پاس پہنچا تو وہ بھی پوری تیاری میں تھے۔
یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی میں تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ ان سے انٹرویو کرتا رہا مشکل اور خشک سوالوں کے جواب بھی انہوں نے خوبصورت انداز میں دیے اسکے بعد تو پھر ان سے نیاز مندی کا سلسلہ جاری رہا میرا دفتر چونکہ مال روڈ چیئرنگ کراس کے بلکل پاس ہی ہے اور علامہ خادم حسین رضوی صاحب جب بھی کبھی مظاہرہ کے لیے فیصل چوک (چیئرنگ کراس)مال روڈ تشریف لاتے تو ان سے ملاقات ضرور ہوتی اور سیاسی صورتحال سمیت اور بہت سی باتیں ہوتیں وہ اسلام کے بہت بڑے سپہ سالار تھے انہوں نے اپنی معذوری کو کبھی بھی اپنی مجبوری نہیں بنایا سڑکوں پر ہوں یا جیل کے اندر ہمیشہ بہادری سے حالات کا مقابلہ کیا ان کی وفات سے ناصرف ٹی ایل پی کارکنوں بلکہ ان کے چاہنے والوں کو بھی دلی صدمہ پہنچا ہے انکی موت سے جو خلا پیدا ہوا وہ تاقیامت پر نہیں ہوسکتا علامہ خادم حسین رضوی پنجاب کے ضلع اٹک کی تحصیل پنڈی گھیپ میں موضع نکہ کلاں کے ایک زمیندار اعوان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 22 جون 1966 کو پیدا ہونے والے علامہ خادم حسین رضوی نے پرائمری تک ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی اور اس کے بعد 80 کی دہائی میں لاہور منتقل ہو گئے۔ علامہ خادم حسین رضوی کے والد کا نام لعل خان اعوان تھا، جن کے دو بیٹے اور دوبیٹیاں ہیں وہ گاؤں سے ابتدائی تعلیم کے بعد لاہور منتقل ہوگئے تھے۔
تاہم مصروفیات کے باوجود گاؤں کا چکر لگاتے تھے۔ خادم رضوی بچپن سے ہی خوش مزاج اور دوسروں کی مدد کرنے والی شخصیت تھے جبکہ زمیندار گھرانے سے تعلق کے باوجود بھی غریبوں کی مدد کرتے تھے۔ جہلم و دینہ کے مدارس دینیہ سے حفظ و تجوید کی تعلیم حاصل کی جس کے بعد لاہور میں جامعہ نظامیہ رضویہ سے درس نظامی کی تکمیل کی۔ وہ حافظ قرآن ہونے کے علاوہ شیخ الحدیث بھی تھے اور فارسی زبان پر بھی عبور رکھتے تھے۔ علامہ خادم حسین رضوی جامعہ نظامیہ بھاٹی گیٹ لاہور کے مہتمم بھی رہے ہیں۔ اس سے قبل پیر مکی مسجد لاہور کی بھی امامت کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ 2007 میں اپنی والدہ کے چہلم میں شرکت کے بعد واپسی پر علامہ خادم حسین رضوی کی گاڑی تلہ گنگ میں حادثے کا شکار ہوئی اور ان کا نچلا دھڑ متاثر ہوا، جس کے بعد سے وہ وہیل چیئر کے ذریعے نقل وحرکت کرتے تھے۔
وہ کئی سال تک محکمہ اوقاف کی مسجد میں خطیب رہے، جہاں انہیں منفرد انداز بیان کی وجہ سے شہرت ملنا شروع ہوئی۔ انہوں نے مذہبی تعلیم وتدریس جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور سے حاصل کی اور عالم کی ڈگری درس نظامی کی تکمیل کی۔ علامہ خادم حسین رضوی نے گزشتہ کچھ برسوں کے دوران پاکستانی سیاست میں اہم مقام حاصل کیا تھا۔ مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں ناموس رسالت کے معاملے پر کیے جانے والے شدید احتجاج اور دھرنوں کی وجہ سے ان کی جماعت تحریک لبیک پاکستان کو ملکی سطح پر پذیرائی ملی تھی، جبکہ عام انتخابات 2018 میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) ملک کی سب سے بڑی مذہبی جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی۔ تحریک لبیک انتخابات کے دوران لاکھوں ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
آسیہ بی بی رہائی کے معاملے پر علامہ خادم حسین رضوی اور دیگر ٹی ایل پی قائدین کے خلاف ملک میں احتجاج کے نام پر انتشار پھیلانے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھاتاہم بعد میں علامہ خادم حسین رضوی کو کئی ماہ جیل کاٹنے اور معافی نامے پر دستخط کیے جانے کے بعد رہا کردیا گیاگزشتہ ہفتے ان کی جانب سے ایک مرتبہ پھر اسلام آباد کی جانب سے رخ کیا گیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کیا جائے مذاکرات کے بعد علامہ خادم حسین رضوی نے اسلام آباد میں دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اسلام آباد میں دھرنے کے دوران ان کی طبیعت خراب ہوئی اور پھر لاہور واپس پہنچنے کے بعد وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے انکے انتقال کی خبر نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر کے چینلز پر بریکنگ نیوز کے طور پر چلائی گئی اور انکے انتقال سے لیکر اب تک علامہ خادم حسین رضوی سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ کے طور پر موجود ہیں انکے انتقال سے پاکستان ایک مخلص محب وطن سے محروم ہوگیا اللہ تعالی انے اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔آمین