الریاض (اصل میڈیا ڈیسک) سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ مستقبل میں کوئی ڈیل صرف جوہری پروگرام تک محدود نہیں رہنی چاہیے بلکہ اس میں اس کی خطے میں تخریبی سرگرمیوں کا بھی توڑ کیا جانا چاہیے۔
انھوں نے اتوار کے روز امریکی نشریاتی ادارے سی این بی سی انٹرویو میں کہا :’’ ہمارا یہ یقین ہے کہ مسئلہ صرف جوہری پروگرام کا نہیں بلکہ ایران کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس نے خطے پر اپنی مرضی مسلط کرنے اور اپنے ہمسایوں اور ان سے آگے کے ممالک میں انقلاب کو برآمد کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ ’’ہمیں اس مسئلہ کو حل کرنے کی ضرورت ہے،میں اس کو مستقبل میں مشترکہ جامع لائحہ عمل پلس پلس کا نام دیتا ہوں۔اس میں جوہری پروگرام کا نہ صرف احاطہ کیا گیا ہو، یہ یقینی طور پر اہمیت کا حامل ہے بلکہ اس میں ایران کی علاقائی سرگرمی کا بھی توڑ کیا جائے۔‘‘
شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ ایران عراق ، لبنان، یمن اور مشرقِ اوسط میں واقع دوسرے ممالک میں اپنے گماشتہ گروپوں کی حمایت کرتا ہے۔یہ گروپ سعودی عرب اور مغربی اہداف کو اپنے حملوں میں نشانہ بنا چکے ہیں۔
ایران نے چھے عالمی طاقتوں کے ساتھ طے شدہ مشترکہ جامع لائحہ عمل کے نام سے جوہری سمجھوتے میں کیے گئے وعدوں کو پورا نہیں کیا ہے اور اس نے اس کے تقاضوں سے انحراف کیا ہے۔بالخصوص صدر حسن روحانی کے مئی 2019ء میں اعلان کے بعد سے ایران اس سمجھوتے کی بعض شرائط سے دستبردار ہوچکا ہے۔
اس نے سمجھوتے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے افزودہ یورینیم کا زیادہ ذخیرہ اکٹھا کر لیا ہے اور اب اس نے جدید سینٹری فیوجزپر تحقیق اور ان کی ترقی کا کام جاری رکھا ہوا ہے۔
شہزادہ فیصل بن فرحان نے انٹرویو میں اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کو یہ گہری تشویش لاحق ہے کہ ایران نے جوہری سمجھوتے کی پابندیوں کو تارتار کردیا ہے۔اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ ایرانی نظام کے لیے اپنے جوہری پروگرام پر پیش رفت کرنا کتنا آسان ہے۔
مریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ برقرار رکھنے کی مہم پر عمل پیرا ہے۔صدر ٹرمپ نے مئی 2018ء میں ایران سے طے شدہ جوہری سمجھوتے سے یک طرفہ طور پردستبردار ہونے کا اعلان کردیا تھا۔ تب سے انھوں نے ایران کے خلاف سخت اقتصادی پابندیاں عاید کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
سعودی وزیر خارجہ نے اس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران پر نمایاں دباؤ کی وجہ سے اس کی عراق ، شام اور لبنان میں مداخلت کی صلاحیت محدود ہو کر رہ گئی ہے۔اس صورت حال میں ہم ایران کے ساتھ ایک بہتر سمجھوتا کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے اور اس میں اس کو مجبور کیا جائے کہ وہ ہماری تمام تر تشویش کو دورکرے۔