فرینکفرٹ (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی میں ہر روز ایک شخص اپنی اہلیہ یا سابقہ پارٹنر کو مارنے کی کوشش کرتا ہے۔تین میں سے ایک کوشش کامیاب ہوتی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بہت سارے مجرم انتہائی آسانی سے بچ نکلتے ہیں۔
جرمن شہر فرینکفرٹ! 2019ء کے ایک اتوار کی شام ایک 32 سالہ لیڈی ڈاکٹر پر اُس کے سابقہ پارٹنر نے چاقو سے 18 وار کیے۔ وہ عین اپنے گھر کے سامنے سڑک پر ہی چند منٹوں کے اندر اندر دم توڑ گئی۔ اس کیس کے سلسلے میں فرینکفرٹ کی ایک پراسیکیوٹر ژولیا شیفر کو جائے وقوعہ پر بلایا گیا۔ ” یہ انتہائی افسوسناک واقعہ ضرور ہے لیکن بدقسمتی سے بہت عام سی کارروائی ہے۔‘‘ یہ کہنا تھا خاتون پراسیکیوٹر ژولیا کا جنہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا، ”مقتولہ اپنے پارٹنر کو چھوڑ چُکی تھی اور قاتل کسی طرح اُسے پھر سے اپنے چنگل میں پھنسانے کی کوشش کر رہا تھا، اپنی طرف کرنا چاہتا تھا۔ اُس نے اس ڈاکٹر کو ڈرایا، دھمکایا اور آخر کار اُس نے پولیس کو رپورٹ کی۔ پولیس نے اُسے اس شخص سے مکمل کنارا کشی کا حکم دیا۔ اس کے باوجود وہ شخص رات کو گھنٹوں باہر کھڑا اُس کا انتظار کرتا رہا۔ جب اس نے کہہ دیا کہ وہ اُس سے کوئی تعلق یا رابطہ نہیں رکھنا چاہتی تو اُس نے اُسے اُس چاقو سے قتل کر دیا جو وہ لے کر آیا تھا۔‘‘
رواں ہفتے منگل کو سامنے آنے والے اعداد و شمار سے پتا چلا ہے کہ 2019ء میں جرمنی میں خواتین کے قتل اور ان کے ساتھ گھریلو تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافے کا رجحان پایا گیا ہے۔ برلن میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جرمنی کی وزیر خاندانی امور فرانسسکا جیفی نے ”بھیانک اعداد و شمار‘‘ کی طرف نشاندہی کی۔
ان کے مطابق جرمنی میں ہر تیسرے دن ایک عورت کا قتل اُس کے پارٹنر کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں 2018ء میں ”جرمنی فیمیسائڈز یا خواتین کے قتل کے اعداد و شمار کی فہرست میں پہلے نمبر پر رہا۔‘‘
ژولیا شیفر، جو اب صوبے ہیسے کی وزارت داخلہ میں جرائم سے بچاؤ کے ایک یونٹ کی سربراہ ہیں، کا کہنا ہے کہ پارٹنر کا قتل کوئی یونہی اٹھ کر نہیں کر دیتا۔ وہ کہتی ہیں،”اس کے پیچھے کئی سالوں کے گھریلو تشدد کا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ عورت کی بے عزتی کرنے، اس کی توہین اور رسوائی کرنے سے شروع ہوتا ہے اور اس میں اکثر معاشی دباؤ کا بھی بڑا کردار ہوتا ہے۔‘‘
جرمنی میں حقوق نسواں کے کارکنوں نے جرمنی کے ٹیبلوآئیڈ میڈیا میں ایسے جرائم کی رپورٹنگ کی سخت مذمت کی ہے کیونکہ ان میں باقاعدگی سے سنسنی خیز اور اس قسم کی ہلاکتوں کو رومانٹک بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر خواتین کے قتل کو اکثر ”جذباتیت کے جرائم، محبت کے المیے اور ”خاندانی سانحات‘‘ جیسی اصلاحات استعمال کر کے سنسنی پھیلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح کی زبان اور الفاظ عام عوام کی سوچ پر نہ صرف اثر انداز ہوتی ہے بلکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشرے کے بہت سے افراد کے لیے عورتوں کا قتل ‘نجی معاملہ‘ ہے۔
ایک غیر سرکاری تنظیم ”تیرے ڈے فیم‘‘ سے منسلک حقوق نسواں کی سرگرم کارکن وانیسا بل کے بقول، ”خواتین کا قتل اب بھی جرمنی میں ایک ممنوع موضوع ہے۔‘‘ اس سلسلے میں اعداد و شمار صرف ان کیسز پر مشتمل ہوتے ہیں جن میں مجرم پر الزام عائد کیا گیا ہو یا انہیں سزا سنائی گئی ہو۔ 2014ء میں یورپی یونین کی سطح پر ایک وسیع مطالعہ تیار کیا گیا تھا جس سے یہ انکشاف ہوا کہ گھریلو تشدد کے ہر تین واقعات میں سے صرف ایک میں پولیس کو مطلع کیا جاتا ہے۔
ایک جرمن ماہر کا کہنا ہے کہ خواتین کے قتل اور گھریلو تشدد میں کسی مذہب یا قومیت کا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا۔
‘جرمن ویمنز لائیر ایسوسی ایشن‘ سے منسلک لیئونی اشٹائنل کہتی ہیں، ”جب کوئی شخص اپنے سابقہ یا حالیہ ساتھی کو مار ڈالے تو اُسے قتل کے جرم کے طور پر دیکھا جانا چاہیے کیونکہ اُس نے یا تو اُسے چھوڑ دیا ہوتا ہے یا چھوڑنا چاہتا ہے کیونکہ یہ عمل جنسیت پر مبنی ملکیت کے تصور سے متاثر ہوتا ہے جو انسانی وقار کی خلاف ورزی ہے۔‘‘
بنیادی طور پر ان کا یہ کہنا ہے کہ اسی طرح کا ایک قبائلی تصور غیرت کے نام پر قتل کی بنیاد بنتا ہے۔ عورت کو اپنی سرپرستی میں رکھنے اور اسے اپنی ملکیت سمجھنے اور غیرت کے نام پر قتل یا حسد کے سبب اپنی سابقہ پارٹنر یا ساتھی کا قتل، ان سب کے سیاق و سباق ملتے جلتے ہوتے ہیں۔
اشٹائنل کا ماننا ہے کہ طریقہ کار اور اسباب جو بھی بنیں بنیادی بات یہ ہے کہ خواتین کو صنف سے متعلق وجوہات کی بنا پر قتل کیا جاتا ہے۔ مگر وہ کہتی ہیں کہ، ” ان معاملات میں دائرہ اختیار کا موازنہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ جرمن عدالتیں غیرت کے نام پر قتل کو ایک بالکل علیحدہ معاشرتی تناظر میں دیکھتی ہیں اور ان کے مرتکب مجرموں کو سخت سے سخت سزا سناتی ہیں۔‘‘
جبکہ جرمنی سے تعلق رکھنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ”تیرے ڈے فیم‘‘ سے منسلک حقوق نسواں کی سرگرم کارکن وانیسا بل کا کہنا ہے کہ، ”جرمنی میں عورتوں کے قتل کو معاشرتی مسئلے کے طور پر اُس وقت دیکھا جانے لگتا ہے جب اس کا پس منظر مذہبی یا اقلیتی ہو۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جرمنی میں خواتین کا قتل کرنے والے مردوں میں سے دو تہائی جرمن شہری ہوتے ہیں۔‘‘
سابق پراسیکیوٹر ژولیا شیفر کا کہنا ہے کہ ”گھریلو تشدد معاشرے کے تمام حصوں میں ہوتا ہے، یہ مذہب یا قومیت یا تعلیم کا سوال نہیں ہے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں،”یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ایسے واقعات سے نظریں نہ چرائیں اور یہ نہ کہیں کہ یہ میرا معاملہ نہیں ہے، بلکہ ہمیں ایسے کیسز میں مدد کی پیش کش کرنا اور پولیس کو فوری طور پر اطلاع کرنی چاہیے۔‘‘