ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایرانی حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جوہری سائنسدان محسن فخری زادے کے قتل کے باوجود ایران کو اپنی سفارتی کوششوں کی قربانی نہیں دینے چاہیے اور جال میں نہیں پھنسنا چاہیے۔
ایرانی حکومت کے ترجمان علی ربیعی کے مطابق 2005ء سے 2015ء کے دوران جب ایران عالمی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات کر رہا تھا، ایران کے جوہری سائنسدانوں پر حملے کیے گئے تھے۔ لیکن تب بھی مذاکرات کا سلسلہ نہیں روکا گیا تھا۔
فخری زادے کو جمعہ 27 نومبر کو تہران کے مضافات میں فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ایران نے فوری طور پر اسرائیل اور امریکا کے کرائے کے قاتلوں پر اس قتل کا الزام عائد کیا تھا۔ ایران میں خیال پایا جاتا ہے کہ امریکی صدارتی عہدے سے رخصت ہونے و الے ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو چاہتے ہیں کہ وہ بیس جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کا دور ختم ہونے سے قبل ایران کے ساتھ کوئی عسکری تنازعہ کھڑا کر یں۔ تہران کا ماننا ہے کہ اس حالیہ حملے کا ایک مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایران کے نو منتخب صدر جو بائیڈن کی قیادت میں امریکا کی نئی حکومت کے ساتھ بھی تعلقات کی بہتری کو روکا جائے۔
ایرانی صدر حسن روحانی اور ملک کے اعتدال پسند طبقوں کو توقع ہے کہ جو بائیڈن کی سربراہی میں امریکی حکومت 2015ء کو ویانا جوہری ڈیل کی طرف واپس لوٹ سکتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018ء میں یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ اب حسن روحانی کو توقع ہے کہ بائیڈن کے آنے سے اس جوہری معاہدے پر دوبارہ عملدرآمد ہو سکے گا اور ایران جو اقتصادی پابندیوں کے باعث شدید مالی مشکلات کا شکار ہے اسے پابندیوں سے نجات مل جائے گی۔
دوسری جانب ایران میں سخت گیر خیالات کے حامل طبقات ایرانی سائنسدان کے قتل کا بدلہ اسرائیل پر حملہ کر کے لینا چاہتے ہیں۔ ایران کے ایک اخبار میں اسرائیلی ساحلی شہر حیفہ پر حملہ کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
فخری زادے ایران کے خفیہ جوہری پروگرام کے بانی تصور کیے جاتے تھے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اپریل 2018ء میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق خفیہ دستاویزات دکھائی تھیں اور اس پریس کانفرنس کے دوران فخری زادہ کا نام بھی لیا تھا۔