بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت کے نئے ذرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا ’دہلی چلو‘ احتجاج آج پانچویں دن میں داخل ہوگیا ہے۔ کسانوں نے مرکزی حکومت کی بات چیت کی مشروط پیش کش ٹھکرا دی ہے۔
سخت سردی اور مودی حکومت کی جانب کسانوں کو دہلی پہنچنے سے روکنے کے لیے اپنائے گئے تمام حربوں کے باوجود ہزاروں کسان دہلی پہنچنے کے اپنے عزم پر قائم ہیں اور انہوں نے بعض شرائط کے ساتھ حکومت کی مذاکرات کی پیش کش کو ماننے سے انکار کردیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ہر حال میں دہلی جائیں گے۔
حقوق انسانی کے لیے سرگرم تنظیم سٹیزنس فار ڈیموکریسی کے جنرل سکریٹری این ڈی پنچولی نے اس حوالے سے ڈ ی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”مرکزی حکومت کو کسانوں کے مطالبات فوراً تسلیم کر لینے چاہییں کیوں کہ ان کی مطالبات مناسب ہیں۔ اس کے علاوہ گرفتار کیے گئے کسانوں کو فوراً رہا کیا جائے اور ان کے خلاف مقدمات واپس لیے جائیں۔ حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہمارے کسان نہ تو مجرمانہ ذہنیت کے ہیں اور نہ ہی وہ دہشت گرد ہیں۔”
دہلی کی سرحد پر کسانوں کے جمع ہوجانے کی وجہ سے قومی دارالحکومت میں ٹریفک متاثر ہوگئی ہے۔ لوگوں کو آنے جانے میں پریشانیاں ہورہی ہیں۔ جب کہ کسانوں کے کچھ جتھوں کے شہر میں داخل ہوجانے کی بھی خبریں ہیں۔
این ڈی پنچولی نے مزید کہا کہ ہریانہ میں بی جے پی حکومت کے وزیر اعلی منوہر لال کھٹرکا یہ بیان کہ اس تحریک میں خالصتانیوں کا ہاتھ ہے، انتہائی قابل مذمت ہے۔ دہلی کے وزیر اعلی اور عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال نے بھی مودی حکومت سے اپیل کی کہ اسے کسانوں کے ساتھ غیر مشروط اور فوراً بات چیت شروع کردینی چاہیے۔
صورت حال کی نزاکت کا اندازہ کرتے ہوئے وزیر داخلہ امیت شاہ نے کل رات دیر گئے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر جے پی نڈا کی رہائش گاہ پر وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور وزیر ذراعت نریندر سنگھ تومر کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔ امیت شاہ نے کہا کہ اگر کسان حکومت کی طرف سے مقرر کردہ مختلف میدانوں میں منتقل جائیں تو ان سے فوراً بات چیت کی جاسکتی ہے۔ لیکن کسان رہنماؤں نے ان میدانوں کو ‘کھلے جیل‘ سے تعبیر کرتے ہوئے حکومت کی تجویز مسترد کردی اور کہا کہ وہ ہر حال میں دہلی پہنچ کر ہی دم لیں گے۔ انہوں نے کہا،” ہم ذرعی قانون واپس لینے تک یہیں رہیں گے، ہم چھ ماہ کا راشن لے کر آئے ہیں۔‘‘
قبل ازیں کسانوں کے مارچ کو روکنے کے لیے حکومت نے پانی کی تیز دھار کا استعمال کیا، آنسو گیس کے شیل داغے، سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کر دیں حتی کہ بعض قومی شاہراہوں پرگڑھے بھی کھود ڈالے تاہم کسان ان تمام رکاوٹوں کو پار کرتے ہوئے دہلی کی مختلف سرحدوں پر جمع ہوگئے ہیں اور پنجاب، ہریانہ اور اترپردیش سے کسانوں کے قافلوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ حالانکہ حکومت نے متعدد کسانوں رہنماؤں کو حراست میں لے لیا ہے اور بہت سے کسانوں کو گرفتار بھی کر لیا گیا ہے۔
احتجاج کرنے والے کسانوں پر ‘پاکستان زندہ باد‘ اور ‘خالصتان زندہ باد‘جیسے نعرے لگانے کے الزامات بھی عائد کیے جا رہے ہیں۔ جب کہ سوشل میڈیا پر انہیں ‘ملک دشمن‘ قرار دینے کی مہم چلائی گئی اور وزیر داخلہ نے اس احتجاج کو ایک سیاسی چال قرار دیا۔ تاہم امیت شاہ نے بعد میں میڈیا سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا، ”نئے ذرعی قوانین کسانوں کی بہبود کے لیے ہیں۔ جو بھی اس کی مخالفت کرنا چاہتا ہے کر سکتا ہے۔ میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ کسانوں کا احتجاج سیاسی ہے اور میں ایسا کبھی کہوں گا بھی نہیں۔”
وزیر اعظم نریندر مودی نے ذرعی قوانین میں کسی طرح کی تبدیلی نہ کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ انہوں نے ماہانہ ریڈیو پروگرام ‘من کی بات‘ میں کہا کہ کافی غور و خوض کے بعد ذرعی اصلاحات کے قوانین منظور کیے گئے ہیں۔ان اصلاحات سے کسانوں کے کئی رکاوٹیں دور ہوئی ہیں اور انہیں نئے حقوق ملے ہیں اور ان کی جو بھی شکایات ہیں وہ دور کردی جائیں گی۔
مودی نے کسانوں سے اپیل کی کہ وہ افواہوں پر کان نہ دھریں، ذرعی قوانین کی وجہ سے بہت ہی کم وقت میں کسانوں کی پریشانیاں دور ہونے لگیں گی۔
احتجاج کرنے والے کسانوں کا کہنا ہے کہ اصلاحات کے نام پر منظور کیے گئے نئے ذرعی قوانین سے کسانوں کی حالت بندھوا مزدوروں جیسی ہو جائے گی اور بھارت کے ذرعی صنعت پر کارپوریٹ اور بڑ ی کمپنیوں کا اجارہ داری ہوجائے گی، جس سے آنے والے دنوں میں نہ صرف کسانوں بلکہ عام شہریوں کو بھی کھانے پینے کی چیزوں کے لالے پڑ سکتے ہیں۔