اہل وطن اور کتنی قربانیں چاہییں ۔٥

Jamaat-e-Islami

Jamaat-e-Islami

تحریر : میر افسر امان

یورپ کے دل میں مسلم ملک بوسنیا ہرزیگوینا ہے۔ بوسنیا کے صدر علی جاہ عزت بیگ ہیں۔یہ علاقہ عثمانی ترکوں نے اپنی دورو حکمرانی میں فتح کیے تھے۔ بوسینیا کے برابر عیسائی سرب ری پبلک ملک ہے۔ صرف مسلمانوں ہونے کی وجہ سے پڑوسی سربوں نے مسلم بوسنیا پر حملے کیے۔ جنگ چار سال جاری رہی۔ مغرب نے اس جنگ میں سربوں کی کھل کر مدد کی۔مسلمانوں کی زمینیںچھین لی گئیں ۔دو ملین لوگ ہجرت کر گئے۔دو لاکھ مسلمان شہید ہوئے۔ کئی گھروں سے بے گھر کر دیے گئے۔بوسنیا کے مشرقی قصبے زورنک میں مسلمانوں کی اجتماعی قبر دریافت ہوئیں ، جس سے ١١٥ لاشیںنکالی گئیں۔کہا گیا کہ ٣٠٠ لاشیں دبائی گئی تھیں۔شمال مغربی بوسنیا میں ٦٢ مسلمانوں کی اجتماعی قبریں ملیں۔بوسنیا کے شمال مغربی ”پریجودور” قصبے میں مسلمانوں کی ١١٠ لاشیں ملیں۔ ریڈ کراس کے اندازوں کے مطابق سربرنیسا قتل عام کے کے بعد ٧٣٠٠ افرا لاپتہ ہوئے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ١٢ اکتوبر ٢٠٠١ء مسلمانوں کے خون ناحق کے تماشائی اقوام متحدہ کے سیکرٹیری جرنل کوفی عنان کو صدی کا نوبل انعام دیا گیا۔ نیدر لینڈ نے ١٩٩٦ء میں ایک ادارے ڈچ انسٹیٹیوٹ فار وار ڈاکومیٹیشن(این آئی او ڈی) کی ایک رپورٹ جو سات ہزار صفحات پر مشتمل ہے، کے مطابق ڈچ فوجی بھی بوسنیا کی نسلی صفایا میں شریک جرم ہیں۔ سرب فوجوں نے بوسینیا پر مسلسل گولہ باری کر کے بوسینیا کی” نیشنل اینڈ یونیورسٹی لائبر یری” مکمل طور پر تباہ کر دی۔٥الاکھ کتابیں، نادر مخبو طات اور قیمتی دستاویزات راکھ ہوگئیں۔ تیرھویں صدی میں ہلاکونے بغدار میں بھی اتنی کتابیں نہیں جلائی تھیں۔ اس مہذب دور کا یہ المیہ ہے کہ بوسنیا کی ہزاروں خواتین کو کیمپوں میں بند کر کے سرب عیسائی فوجی غنڈوں نے اجتماہی آبرو ریزی کی تھی۔ یہ خواتین ایک عرصے تک قید رہیں۔ جب ان کے بچے پیدا ہوئے تو ان کو مغربی ملکوں میں تقسیم کیا گیا۔(حوالہ کتاب ”مسلم دنیا” مصنف فیض احمد شہابی)

ان مظالم کے دوران جماعت اسلامی پاکستان نے بوسنیا کی خاتون سفیر، ساجدہ ساجک کو پاکستان کے کونے کونے میں بوسنیا کا مقدمہ پیش کرنے کے لیے دورے کرائے تھے۔ ساجدہ سلاجک کو پاکستان کے مسلمانوں باری رقم جمع کر دی۔ کراچی میں رقم الحروف بھی ایسے دوروں کے ایک پروگرام میں شریک ہوا۔جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر مرحوم قاضی حسین احمد، جنگ کے دوران ایک بڑی امدادی رقم لے کر بوسنیا کے مسلمان بھائیوںکی امداد کو بوسنیا پہنچے تھے۔ کیا پھر کوئی مسلمان گلہ کر سکتا ہے کہ جماعت اسلامی مسلمانوں کی پشتی بان نہیں؟

وسط ایشیا میںقفقاز کے پہاڑی علاقے میںچیچنیا روس کی ایک مسلم ریاست ہے۔ چیچنیا کے عوام روس کے زاروں، کیمونسٹ سویٹ یونین اور رشین فیڈریشن سے چار سو سال سے آزادی کے لیے جنگ کرتے رہے۔ لاکھوں چیچن عوام کے ساتھ ان کے مشہور و معروف کمانڈر، محمد خسو،زیلم خراچوئے،امام شامل،زیلم خان ،جنرل جوہر دودائف، رمضان احمدوف، محمد سگرائف اورعربی برائف جنگ آزادی میں شہیدہوئے۔(حوالہ کتاب”مسلم چیچنیا ” مصنف کرم اے خان ) کیمونسٹ روس نے چیچنیا کی پوری آبادی کو سزا کے طور پر سائیبریا بھیج دیا۔ سرد موسم میںکئے مر گئے اور کچھ بعد میں واپس بلالیے گئے۔ روس نے چیچنیا میں ویکوم بم بھی استعمال کیا۔ ویکوم بم ایٹم بم کی ایک چھوٹی قسم ہے۔ اس کے استعمال سے ہوا میں آکسیجن ختم ہوجاتی ہے اور ہر جاندار مر جاتا ہے۔ریڈ کراس نے اس کی مذمت کی تھی۔

چیچینا کے پہلے صدر جنرل جوہر دودائف تھے۔ یہ روسی فوج کے پہلے چیچن مسلم جنرل جوہر ددوائف ،جو امام شامل کے پوتے ہیں۔ اس نے چیچنیا کی آزادی کے لیے روس سے جنگ لڑی۔جنرل جوہر دودائف کو روس نے ایک سازش کے تحت سیٹ لائیٹ پریس کانفرنس پر بلایا گیا۔ پریس کانفرنس کے دوران ریڈیو فریکئنسی کے ذریعے میزائل داغ کر روس نے شہید کیا تھا۔ اس کے بعد نائب صدر زیلم خان یندربی چیچنیاکے صدر منتخب ہوئے۔زیلم خان نے چیچنیا میں ١٩٩٦ء میں پرانے قوانین ختم کر کے باقاعدہ طور پر شریعت نفاذ کر دی۔زیلم خان برسوں روسیوں سے لڑتے رہے۔

بلا آخر زیلم خان کو روس نے جلا وطن کر دیا ۔زیلم خان کوکویت میں جلاوطنی کے دوران روسی خفیہ ایجنسی نے شہید کر دیا۔چیچنیا کے صدر زیلم خان پاکستان تشریف لائے تھے۔ جماعت اسلامی کی قیادت کے ساتھ مل کر روس کے مظالم کی داستان پاکستانی عوام کے سامنے پیش کی۔ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں میں یہ صرف جماعت اسلامی تھی کہ جس نے پاکستانی عوام کو اپنے چیچن مسلمان بھائیوں سے آگاہ کرنے کے جلسے، جلوس اور ریلیاںمنعقد کیں۔ چیچنیا کے صدر زیلم خان کوپورے پاکستان کے دورے کرائے۔کراچی کے ایک دورے کے پروگرام میں راقم الحروف بھی شریک ہوئے۔جماعت اسلامی نے پاکستانی عوام سے چیچنیا کے مظلوم کی امداد کی اپیل کی۔ پاکستانی عوام نے ہمیشہ کی طرح اپنے مسلمان بھائیوں کی دل کھول مددکی۔ اللہ کا شکر ہے کہ چیچنیا کے مظلوم مسلمانوں کی جماعت اسلامی ہی پشتیبان بنی۔ یہ جماعت اسلامی کی قربانیاں جس پر اسلامی دنیابجا طور پر دنیا فخر کر سکتی ہے۔
ا
٢
ایران ہمارا پڑوسی مسلمان ملک ہے۔اگر ایران کے انقلاب کی بات کی جائے توخمینی یکم فروری ١٩٧٩ء کو فرانس سے تہران پہنچے۔خمینی کے ایران آنے پرپورا ایران لا شرقیا لا غربیا۔۔۔ اسلامی اسلامیا اسلامی کے فلک شگاف نعروں سے گونجنے لگا۔شاعرِ اسلام حضرت علامہ شیخ محمد اقبال نے کیا صحیح فرمایا ہے کہ:۔

سلطان جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو

ایران میں اُس وقت ڈاکٹر شاہ پور بختیار وزیر اعظم تھے۔اس نے استعفیٰ دینے سے انکار کیا۔ خمینی نے٥ فروری کو ڈاکٹر مہدی بارزگان کو اپنی طرف سے وزیر اعظم مقرر کر دیا۔ فوج نے شاہ پور بختیار کو یقین دلایا تھا کہ وہ خمینی کے ساتھ سمجھو نہیں کرے گی۔ ایئر فورس نے بغاوت بھی کی۔پاسدان انقلاب نے ان کو جواب دے دیا۔فوج کے جنرنوں نے محسوس کیا کہ عافیت اسی میں ہے کہ فوج کوواپس بارکوں میں بلا لیا جائے۔ شاہ پور بخیتار کی حکومت کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔پھر شاہ پور بختیار ہیلی کاپٹر میں سوار ہو کر چل دیے۔
(حوالہ کتاب ”انقلاب ایران” مصنف سبط حسن)

بہر حال ایران کے اسلامی انقلاب کو مستحکم کرنے کے بعد اپنے اسلامی انقلاب کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اپنے دو نمائیدے پاکستان میں اپنے شعیہ فرقے کے لوگوںکے بجائے سید ابو الاعلیٰ مودودی کی جماعت اسلامی کے پاس بھیجے تھے۔جماعت اسلامی نے پاکستان کے مختلف شہروں میں پروگرام ترتیب دے کر پاکستانی عوام میں انقلاب ایران کی مدد کی تھی۔ کراچی کے ایک ایسے ہی پروگرام میں راقم الحروف کو شرکت کا موقعہ ملا تھا۔گوکہ ایران ایک شعیہ حکومت ہے۔ مگرخمینی نے اتحاد بین المسلمین کے لیے ایک کوشش کی تھی۔ ایران کے انقلاب کو شعیہ انقلاب کے بجائے اسلامی انقلاب کہا۔ اسی بنیادپر دوسرے اسلامی ملکوں سے حمایت چاہی تھی۔ مگرخمینی کے بعد اس کے جانشینوں نے اسلامی انقلاب کو شعیہ انقلاب میں بدل دیا۔ بعد میں اپنے شعیہ اثرات پھیلانے کے لیے دیگر مسلم ملکوں میں شعیہ اقلیتوں کو اسلحہ تک فراہم بھی کیا۔ جو آج یمن، شام اور عراق میں اور دوسرے مسلم اکثریتی ملکوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔جماعت اسلامی نے تو خمینی کے اسلامی انقلاب کی حمایت کرکے اپنی اتحاد بین ا لمسلمین پالیسی کی توثیق کی تھی۔کچھ بھی ہو تاریخ اسلام میں یہ جماعت اسلامی کی اتحاد بین المسلمین کے لیے قربانی ہی تسلیم کی جائے گی۔باقی آیندہ ان شاء اللہ۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان