افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) طالبان اور افغانستان حکومت کے مذاکرات کاروں کے درمیان مجوزہ ابتدائی معاہدہ الفاظ کے استعمال پر اختلاف کی وجہ سے بالکل آخری لمحے میں اپنی تکمیل کو نہیں پہنچ سکا۔
طالبان اور افغانستان کی حکومت کے درمیان ابتدائی معاہدے کی کامیابی بالکل آخری لمحے میں ایک بار پھر اس وقت ہاتھوں سے نکل گئی جب طالبان مذاکرات کاروں نے معاہدے کے مسودے کی تمہید میں افغان حکومت کا نام درج کیے جانے پر اعتراض کردیا۔
طالبان اور افغان حکومتوں کی نمائندگی کرنے والے وفود ستمبر سے ہی قطر کے دارالحکومت میں بات چیت اور امن مذاکرات کے طریقہ کار پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ افعانستان میں کئی عشروں سے جاری جنگ کو ختم کرنے کے حوالے سے کوئی پیش قدمی ہو سکے۔
افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان صدیق صدیقی نے پیر کے روز ایک بیان میں کہا،”مذاکراتی وفود اب تک ان تمام 21 نکات پررضامند ہو گئے ہیں، جو بات چیت کے لیے رہنما اصول فراہم کریں گے اور اس وقت وہ ابتدائیے پر بات چیت کررہے ہیں جس میں بعض امور پر مزید وضاحتوں کی ضرورت ہے۔”
حکومتی اور سفارتی ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ جب معاہدے پر دستخط کا وقت آیا تو اس میں شامل ‘اسلامی جمہوریہ افغانستان‘، جو کہ افغان حکومت کا سرکاری نام ہے، پر طالبان نے اعتراض کردیا۔
طالبان نے افغان مذاکراتی ٹیم کو افغان حکومت کا نمائندہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا کیوں کہ وہ اشرف غنی کے انتخاب کے قانونی جواز کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔
کابل میں ایک سفارت کار نے روئٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”وہ(حکومت اور طالبان) معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تیار تھے۔ افغان حکومت کے چیف مذاکرات کار اس معاہدے پر ‘اسلامی جمہوریہ افغانستان کے چیف مذاکرات کار‘ کی حیثیت سے دستخط کرنا چاہتے تھے۔ لیکن طالبان نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔”
طالبان نے اس تازہ پیش رفت پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے تاہم ماضی میں وہ اپنے اس موقف کا اعادہ کرتے رہے ہیں کہ وہ مذاکرات کاروں کو حکومت کا نمائندہ تسلیم نہیں کریں گے البتہ افغانوں کے ساتھ بات چیت کریں گے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پیر کے روز کہا تھا، ”ہم افغانوں کی موجودہ ٹیم کے ساتھ بات چیت کو آگے بڑھانے کے لیے تیار ہیں۔ ہم انہیں حکومت کی ٹیم نہیں مانتے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ طالبان کا اول روز سے ہی یہ موقف ہے کہ وہ اس حکومت کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔
ایک دیگر سفارتی ذرائع کا کہنا تھا کہ لفظ ”جمہوریہ” اور طالبان کے اپنے لیے”اسلامی امارت” کے استعمال پر بھی فریقین میں اختلاف ہے۔ انہوں نے کہا ”جمہوریہ” اور ”امارات” کے الفاظ پر اختلاف نے مذاکرات کاروں کے درمیان گہرے شبہات پیدا کردیے ہیں۔ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے کیونکہ اس کے اثرات کسی ملک کے وژن اور امنگوں پر پڑتے ہیں اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ خود کو کس طرح پیش کرنا اور اپنے متعلق رائے بنانا چاہتا ہے۔
ایک اعلی سرکاری ذرائع کے مطابق افغان حکومت کی ٹیم نے طالبان کے تحفظات سے صدر اشرف غنی کو آگاہ کردیا ہے۔ اشرف غنی کا کہنا ہے کہ وہ اس طرح کے مطالبے کو تسلیم نہیں کریں گے۔
ایک دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان اپنے موقف پر اس لیے اصرار کررہے ہیں کیوں کہ وہ امن مساعی کے آغاز کے بعد غنی کی منتخب حکومت کی جگہ ایک کارگزار انتظامیہ چاہتے ہیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ فروری میں امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے میں اسلامی جمہوریہ افغانستان کا نام کے ساتھ ذکر نہیں ہے۔ اس میں بین افغان مذاکرات اور بات چیت کے نتیجے میں معاہدے کے بعد ایک نئی افغان اسلامی حکومت کے قیام کی بات کہی گئی ہے۔
اس معاہدے میں امن مذاکرات کے لیے بھی ”بین افغان” مذاکرات کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔
افغان حکومت کے ایک ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان وفد بات چیت سے الگ نہیں ہو گا لیکن اس بات کا خدشہ ہے کہ اس نئے تعطل کے نتیجے میں فریقین میں تلخی پیدا ہو سکتی ہے اور افغانستان میں تشدد میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔