امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) صدر ٹرمپ کے وفادار اور محمکہ انصاف کے سربراہ بل بار نے بھی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ تاہم وائٹ ہاؤس فراڈ کے اپنے موقف پر اب بھی قائم ہے۔
امریکا کے اٹارنی جنرل اور صدر ٹرمپ کے طرفدار بل بار نے منگل یکم دسمبر کو خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس سے بات چیت میں کہا کہ امریکی محکمہ انصاف نے تین نومبر کے صدارتی انتخابات میں دھاندلی کے دعوؤں کی تفتیش کی ہے اور اسے صدر ٹرمپ کے اس دعوے کے حق میں کوئی بھی ثبوت نہیں ملا کہ ووٹوں میں بڑے پیمانے پر فراڈ کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا، ”اب تک ہم نے اس پیمانے کی دھاندلی نہیں دیکھی ہے جس سے انتخابات کے نتائج پر اثر پڑ سکتا ہے۔” بل بار نے ٹرمپ ٹیم کے کچھ دعووں پر غور خوض کر کے اس کی چھان بین کرنے کی بات کہی ہے تاہم اس کی کوئی تفصیل نہیں بتائی۔
بل بار کا کہنا تھا، ”یہ دعوی کیا جاتا رہا ہے کہ دھاندلی منظم طور پر کی گئی اور یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کے لیے ووٹنگ مشینوں کو اسی طرز پر پروگرام کیا گیا تھا۔ ڈی ایچ ایس (ہوم لینڈ سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ) اور محکمہ انصاف نے اس پر غور کیا ہے اور اب تک ہمیں ان دعوؤں کے ثبوت میں کچھ بھی پختہ نہیں ملا ہے۔”
بل بار ٹرمپ کے پرانے ساتھیوں میں سے ہیں اور 2018 میں جب سے انہیں جیف سیشن کی جگہ محکمہ انصاف کا صدر بنایا گیا تب سے انہیں صدر ٹرمپ کا وفادار بتایا جاتا رہا ہے۔ لیکن انتخابات سے عین قبل ہی میڈیا میں اس طرح کی خبریں بھی آنے لگی تھیں کہ صدر ٹرمپ ان سے اس بات پر ناخوش ہیں کہ ان کے دوبارہ منتخب ہونے میں بار سے جس مدد کی توقع تھی اس پر وہ پورا نہیں اتر رہے تھے۔
حال ہی میں اٹارنی جنرل نے گرچہ وفاقی پراسیکیوٹرز کو انتخابی دھوکہ دہی کے مصدقہ الزامات کی تحقیقات کا حکم دیا تھا تاہم انہوں نے اس سلسلے میں فرضی دعوؤں یا پھر خام خیال باتوں سے دور رہنے کی بھی ہدایت کی تھی۔
امریکی محکمہ انصاف کے سربراہ کے ان بیانات کے باجود ٹرمپ کی ٹیم نے انتخابی نتائج کو بدلنے کی اپنی کوشش جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے وکیل روڈی جولیانی، جنہوں نے اس قانونی ٹیم کی کمان سنبھال رکھی ہے، کا کہنا تھا ان کی لڑائی جاری رہے گی۔
ان کا کہنا تھا، ”اٹارنی جنرل کا ہر لحاظ سے احترام کرتے ہوئے، محکمہ انصاف کی تفتیش سے کوئی تعین نہیں ہوا ہے۔ ہم سچ کی تلاش کے لیے عدالتی نظام اور ریاستی قانون کے مطابق اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔”
اس لڑائی میں ٹرمپ کی ٹیم کو اب تک کوئی خاص کامیابی نہیں ملی ہے۔ وفاقی اور ریاستی سطح کی عدالتوں میں ان کی تمام اپیلیں تقریباً خارج ہوچکی ہیں۔ لیکن اخبار واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ تین نومبر کے بعد سے ہی ٹرمپ نے اپنے دعوے کے دفاع کے لیے تقریباً 15 کروڑ ڈالرکی رقم بطور عطیہ حاصل کر لی ہے۔
اخبار کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سلسلے میں آنے والا چندہ براہ راست ٹرمپ کے نئی’سیو امریکن پولیٹیکل کمیٹی’ کو جاتا ہے جبکہ اس کا بہت تھوڑا حصہ ہی ریپبلکن کمیٹی کو ملتا ہے۔ اخبار کے مطابق ممکن ہے کہ شکست تسلیم نہ کرنے کی یہ ایک بڑی وجہ ہو۔
انتخابات کے جو نتائج اب تک سامنے آئے ہیں اس کے مطابق جو بائیڈن کو 306 الیکٹورل کالج ووٹ ملے ہیں جبکہ ٹرمپ کو 232 ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ اس کی باضابطہ تصدیق 14 دسمبر کو ہونی ہے تاہم ٹرمپ کی ٹیم اس روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش میں لگی ہوئی ہے۔