یمنی جنگ میں اب تک دو لاکھ تینتیس ہزار ہلاکتیں، اقوام متحدہ

Yemeni Children

Yemeni Children

یمن (اصل میڈیا ڈیسک) عرب دنیا کے انتہائی پسماندہ اور غریب ترین ملک یمن کی جنگ میں اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق گزشتہ پانچ سال کے دوران دو لاکھ تینتیس ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ لاکھوں انسان اس جنگ یا اس کے اثرات کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔

نیو یارک میں عالمی ادارے کے انسانی بنیادوں پر امداد سے متعلقہ امور کے رابطہ دفتر (OCHA) کی طرف سے بتایا گیا کہ 2015ء میں شروع ہونے والا یمن کا جنگی تنازعہ دنیا کا بدترین انسانی بحران بن چکا ہے۔

دریں اثنا یہ جنگ مزید کثیر الجہتی ہو کر اب اتنی پھیل چکی ہے کہ اس تنازعے کے واضح طور پر قابل شناخت دھڑوں اور محاذوں کی تعداد اب 47 ہو چکی ہے۔ یہ امر یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ یہ تنازعہ کتنا طویل، ہلاکت خیز اور پیچیدہ ہو چکا ہے۔

اقوام متحدہ کے دفتر او سی ایچ اے کے مطابق پانچ سال قبل شروع ہونے والی یمن کی جنگ کے نتیجے میں تقریباﹰ ایک لاکھ 31 ہزار انسان تو صرف بھوک، بیماریوں، غربت اور دیگر جنگی اثرات کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں۔ مزید یہ کہ رواں سال کے صرف پہلے نو ماہ کے دوران اس ملک میں کئی طرح کی جنگی کارروائیوں میں مزید تقریباﹰ 1500 عام شہری بھی مارے گئے۔

یوں عرب دنیا کے اس پہلے سے ہی غریب ترین اور جنگ کی وجہ سے تباہ ہو چکے ملک میں اب تک جنگ کے نتیجے میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر دو لاکھ 33 ہزار انسانوں کی جان جا چکی ہے۔ اس کے علاوہ کورونا وائرس کی عالمی وبا، شدید بارشوں، پٹرول کی قلت، اور ٹڈی دل کے حملوں کی وجہ سے بھی اس ملک اور اس کی معیشت کو اتنا شدید نقصان پہنچا ہے کہ رواں سال اس عرب ریاست کے لیے غیر معمولی حد تک تباہ کن ثابت ہوا ہے۔

یمن کی کئی سالہ جنگ اس ملک کے عوام کے لیے کتنی ہولناک ثابت ہوئی ہے، اس کا اندازہ حال ہی میں تعز میں بھی لگایا جا سکتا تھا۔ اقوام متحدہ کے دفتر او سی ایچ اے کے یمن کے لیے نگران سربراہ الطاف موسانی نے تعز میں جس رہائشی علاقے کا حالیہ دورہ کیا، اس کے بعد انہوں نے وہاں عام شہریوں کے گھروں پر توپ خانوں سے کی جانے والے گولہ باری کو بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کا نام دیا۔

الطاف موسانی کے مطابق، ”ایسے بے حس اور لایعنی حملے، جن کے نتیجے میں بہت سے بچے اور خواتین بھی ہلاک ہو جاتے ہیں، قابل مذمت بھی ہیں اور ناقابل معافی بھی۔‘‘ اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے یونیسیف کے مطابق گزشتہ چند روز کے دوران یمن میں تعز اور الحدیدہ کے علاقوں میں جو جنگی حملے کیے گئے، ان میں کم از کم 11 بچے بھی مارے گئے جبکہ شہری ہلاکتوں کی مجموعی تعداد تو اس سے کہیں زیادہ تھی۔

OCHA کے مطابق یمن میں حالات اتنے خراب ہیں کہ وہاں انسانی بنیادوں پر فوری امداد کے حق دار مردوں، عورتوں اور بچوں کی تعداد عنقریب ہی مزید بڑھ کر 24.3 ملین ہو جائے گی۔ ان تقریباﹰ ڈھائی کروڑ انسانوں کی مدد کے لیے عالمی ادارے نے بین الاقوامی برادری سے 3.4 بلین ڈالر کی امدادی رقوم کی درخواست کی تھی۔

لیکن ہوا یہ کہ اب تک ان رقوم کے محض ایک بہت ہی چھوٹے سے حصے کی فراہمی کے وعدے کیے گئے ہیں جبکہ عملاﹰ مہیا کردہ رقوم کی مالیت تو ان مالیاتی وعدوں کا بھی صرف چند فیصد ہی بنتی ہے۔

اس عمل میں یہ بات بھی بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے لیے انتہائی تکلیف دہ ثابت ہو رہی ہے کہ اس جنگی کے مسلح فریق اپنے اپنے زیر اثر علاقوں میں امدادی سامان کی ترسیل میں بھی رکاوٹیں پیدا کرتے رہتے ہیں یا سرے سے امداد کی فراہمی کی اجازت ہی نہیں دیتے۔

اقوام متحدہ کے مطابق جنگ کی وجہ سے یمن میں پانچ لاکھ بچوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور ان میں سے تین لاکھ ستر ہزار بچے شدید بھوک کے شکار ہیں۔

یمن کی جنگ میں بظاہر دو بڑے فریق ہیں۔ ایک تو وہ حکومت جو پانچ سال پہلے تک اقتدار میں تھی اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تھی اور دوسرا فریق وہ حوثی شیعہ باغی جنہوں نے حکومت کے ‌خلاف ہتھیار اٹھائے تھے۔

سعودی عرب یمنی حکومت کا حلیف تھا اور ہے اور اسی لیے اس نے 2015ء میں ہی حوثی باغیوں کے خلاف اپنی قیادت میں ایک بین الاقوامی عسکری اتحاد قائم کر لیا تھا۔ دوسری طرف ایران ہے، جو حوثی باغیوں کا حامی ہے۔ اس طرح یمن کی جنگ ایک ایسا کثیر الفریقی تنازعہ بھی ہے، جو ‘دوسروں کی جنگ ہے لیکن یمن میں لڑی جا رہی ہے‘۔