اس کا ایک ہی خواب تھا کہ میں ملکہ ٔ عالم بنوں پوری دنی ااس کے زیرِنگین ہو جائے اسی حکمتِ عملی کے تحت اس نے عظیم یونانی سلطنت کے شہرہ آفاق حکمران جولیس سیزر رسائی حاصل کرنے کے لئے ایک دلچسپ طریقہ اختیار کیا اس نے خود کو ایک خوبصورت قالین میں لپیٹ لیا جب یہ قالین روم کے فرمانروا کے حضور پیش کیا گیا تو اس سے جو خاتون برآمد ہوئی اس کے حسن نے جولیس سیزر کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا وہ سوچنے لگا کوئی عورت اتنی بھی حسین ہو سکتی ہے وہ اس کی زلفوں کااسیرہوکررہ گیااسی دوران اس عیار عورت نے جولیس سیزر کے دوست نائب جنرل انطونی کو اپنے ریشمی جال میں پھنسا لیا رقابت میں نائب جنرل انطونی نے جولیس سیزر کو قتل کر ڈالا اس عورت کو لوگ آج بھی اسے دنیا کی حسین ترین عورت کے نام سے یاد کرتے ہیں صدیوں سے اس کے حسن کو خراج ِ تحسین پیش کرنے کیلئے مجسمے، پوسٹر اور فلمیں بنائی جارہی ہیں شیکسپئر جیسا سخص سے بہت متاثرتھا اس کے ہوش ربا حسن اور قیامت خیز جوانی نے دنیا کی دو عظیم سلطنتوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی کچھ لوگ اسے جنسی جنونی بھی کہتے ہیں کچھ انتہائی مکار اور بے وفا گردانتے ہیں قدیم تاریخ کی شہرہ آفاق فرعون ملکہ قلوپطرہ کومصر کی پراسرارملکہ کہاجائے بے جانہ ہوگا وہ ایک تاریخ ساز عورت تھی۔ 48 قبل مسیح میں اس نے خود سے عمر میں تیس سال بڑے جولیس سیزر کو اپنے دام ِ محبت میں گرفتار کیا اور اس کے بچے کی ماں بنی۔
پھر نہ جانے کیوں اس نے مارک انطونی کے ساتھ پینگیں بڑھالیں لیکن اس معاشقے کا انجام اچھا نہیں ہوا بیشترمورٔخین کا کہناہے کہ وہ ایک منتشر مزاج کی عورت تھی اس کے باوجود اس بے وفا کو انتونی سے سچ مچ پیارہوگیا تھا پھرنہ جانے کیونکر جب انطونی کو جنگ میں شکست ہوئی تو اس نے اپنی ایک خادمہ کے ذریعے انتھونی تک یہ ا اطلاع پہنچائی کہ قلوپطرہ نے اس کی شکست سے دل برداشتہ ہو کر زہرکھاکرمرگئی ہے اس کے عشق میں مبتلا انطونی نے اس افواہ کو حقیقت سمجھا اور تلوار سے اپنا پیٹ چاک کر کے خود کشی کر لی انتھونی کی موت کا اس کی زندگی پر پڑا گہرا اثرہوا شوخ چینچل قلوپطرہ د لبرداشتہ ہوگئی اس کاضمیر ملامت کرنے لگا ایک رات وہ ٹہلتے ٹہلتے محل کے اس حصے میں جاپہنچی جہاں زہریلے اژدھے موجودتھے وہ ان کے ساتھ چھڑ چھاڑ کرنے لگی ایک کوتو اس نے اپنے جسم کے گردلپیٹ لیا اس کا منہ پکڑکر اپنی کلائی پر رکھ دیا اچانک زہریلے اژدھے نے کاٹ لیا وہ زمین پر گرگئی منہ سے جھاگ نکلنے لگی وہ بڑبڑانے لگی انطونی میں بھی یہی چاہتی تھی میں تمہارے پاس آرہی ہوں۔
یہ داستان ِ حیات اس عورت کی ہے جو ملکہ ٔعالم بنناچاہتی تھی یہ کہانی ہے قلوپطرہ کی جو مصر کی شہرہ آفاق فرعون ملکہ تھی جس کے ہوش ربا حسن اور قیامت خیز جوانی نے سلطنت روم کے نامور جرنیلوں کو خاک و خون میں رنگ کر عظیم الشان سلطنتوں کو ہمیشہ کے لئے صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ قدرت نے اسے دلکش حسن اور جادوئی شخصیت سے نوازا تھا۔ لیکن افسوس کہ وہ اس حسن کی قیمت وصول کرتے ہوئے، خود نیلامی کی سولی پر چڑھ کر ایک نا قابل فراموش داستانِ عشق و بے وفائی بن کر تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گئی۔ مورخین کے مطابق وہ حسن و چاشنی اور ذہانت کے جادوئی ہتھیاروں سے لیس ایک پراسرار و عیار عورت تھی ۔تاریخ بتاتی ہے یونانی النسل مصری بطلیموس خاندان کاچودھواں فرعون قلوپطرہ کا بڑا بھائی تخت نشین ہوا تو اس نے فرعونی روایات کے مطابق اپنی گیارہ سالہ کم سن بہن قلوپطرہ سے شادی کرلی چندسال بعد اس کی ہلاکت کے بعد 11 سالہ چھوٹے بھائی بطلیموس نے تخت سنبھالا تو اس نے بھی خاندانی روایات کے مطابق قلوپطرہ سے شادی کرلی اس وقت قلوپطرہ اٹھارہ سال کی بھرپور جوان اور خاوند تیرہ سال کا نابالغ بچہ تھا جسے ابھی زندگی کے رموز واسرارکا کچھ علم نہیں تھا۔
گیارہ برس کی عمر میں بڑے بھائی جیسے بھرپور مرد کے ہاتھوں میں جنسی کھلونا بن کر جنون کا آتش فشاں بن جانے والی قلوپطرہ کے لئے 11 سالہ نابالغ خاوند اس کی فطری طلب میں آگ لگانے کا موجب بن گیا اس کی تشنگی، ایک نابالغ خاوند کی نااہل رفاقت نے، قلوپطرہ کو جنسی تسکین کے لئے خوب سے خوب مرد کی تلاش میں سرگرداں ایک ایسی ”جنسی بلی” بنا کر رکھ دیا جس نے پھر اپنی موت کو گلے لگانے تک کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ کم سن شاہ بطلیموس کے اقتدار کا دور پرآشوب اور امور مملکت پر گرفت انتہائی کمزور تھی وہ اپنے فیصلوںپر قادرنہ تھا دربارمیں قلوپطرہ کے متعلق نت نئے سکینڈل اور کہانیاں چٹکھارے لے کربیان کی جاتیں تو اس کا شوہرذلت اور رسوائی سے بیچ وتاب کھاکررہ جاتا اسی لئے اس نے اپنے درباری امرا کی مدد سے منہ زور بیوی قلوپطرہ کو مصر سے جلاوطن کردیا جس پر قلوپطرہ شام میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئی لیکن بطلیموس کی ہلاکت پر قلوپطرہ نے شاہی تخت و تاج سنبھال کر خدائی کے دعویدار فرعونوں کی روایات کے مطابق خود کو دیوی کہلوانا شروع کر دیا۔کہاجاتاہے کہ قلوپطرہ کے معرکہ ٔ عشق کا پہلا شکار روم کا وہ شہرہ آفاق حکمران جولیس سیزر تھا، جو خاوند اور اس کی ثالثی کے لیے مصر آیا۔ مگر اس کے سحر انگیز حسن اور زلفوں کا اسیر ہو کر دو برس تک مصر میں مقیم رہا اور بنا شادی رچائے ہی قلوپطرہ کے ناجائز بچے کا باپ بن گیا۔
اپنے سب سے بڑے حریف جنرل پامپے کو شکست دینے کے بعد جولیس سیزر نے تخت روم سنبھالا تو قلوپطرہ اس کی قربت اور دیگر پراسرار عزائم کے لیے روم میں ہی مقیم ہو گئی اور یوں عملی طور مصر سلطنت روم کا ایک صوبہ بن کر رہ گیا۔ اپنے بے وفا دوست بروٹس اور رومی سینٹروں کے ہاتھوں جولیس سیزر کا قتل ہوا تو قلوپطرہ اس کے مونہہ بولے بیٹے اور نائب جنرل انطونی سے تعلقات بنا کر اس کے تین بچوں کی ماں بن گئی۔ مارک انطونی شاہ آگسٹس کا بہنوئی بھی تھا، لہذا قلوپطرہ اور انطونی کا یہی تعلق دونوں کے درمیان میں جنگ و جدل کے سلسلے کا ایک سبب بنا۔ جنسی ہوس کے لیے مصر سے روم تک بھٹکتی ہوئی قلوپطرہ کی یہ تیسری اور آخری شادی تھی۔ انطونی نے جنرل آکٹیوین سے شکست کھائی تو قلوپطرہ میدان جنگ سے فرار ہو کر ایک خفیہ پناہ گاہ میں جا چھپی۔ اس دوران میں اس نے انطونی کو شکست دینے والے فاتح جرنیل آکٹیوین سے عاشقانہ راہ و رسم بنانے کی بھرپور کوشش کی مگر ناکام ہوئی۔ اس نئی آرزوئے ہوس میں بے مرادی کے بعد اس نے انطونی کے ساتھ بے وفائی کا جو کھیل کھیلا اس کا نتیجہ صرف انطونی کی نہیں بلکہ خود اس کی بھی عبرتناک موت ٹھہرا۔ تاریخ کے مطابق اس نے اپنی ایک خادمہ کے ذریعے انطونی تک یہ افواہ پہنچائی کہ قلوپطرہ نے اس کی شکست سے دل برداشتہ ہو کر خودکشی کر لی ہے۔
عشق میں مبتلا انطونی نے اس افواہ کو حقیقت سمجھا اور تلوار سے اپنا سینہ چاک کر کے خود کشی کر لی۔ اور پھر انطونی کی خودکشی کی خبر سننے پر، پچھتاوے کی آگ میں جلتی ہوئی قلوپطرہ خود کو زہریلے مصری کوبرا سانپ سے ڈسوا کر تاریخ میں بے وفائی کی علامت بن کر ہمیشہ کے لیے زندہ ہو گئی۔ کچھ مورخین کے مطابق عیار قلوپطرہ نے صرف جنسی تعلقات کیلئے نہیں بلکہ، وسعتِ اقتدار کے لیے رومی سلطنت کو تباہ و برباد کر کے روم پر قابض ہونے کے لئے جولیس سیزر کی زندگی تک رسائی کی تھی۔ لیکن کچھ مبصرین کے مطابق جولیس سیزر کے اپنے ہی قابل اعتماد دوست بروٹس کے ہاتھوں قتل میں بھی اسی قلوپطرہ کا شاطرانہ ذہن کارفرما تھا۔ کچھ مبصرین کے مطابق اس نے اپنے شوہر انطونی کو شکست دینے والے جنرل آکٹیوین تک رسائی حاصل کرنے کے لئے اسی جرنیل کے ایما پر ہی انطونی کو موت کی طرف دھکیلنے کی سازش بھی کی ہو گی۔ بہرحال یہ کہاجاسکتاہے کہ قلوپطرہ ایک عجیب و غریب شخصیت کی مالک تھی اس نے دنیا کی دو عظیم سلطنتوںکوہلاکررکھ دیابلاشبہ ایسے کردار صدیوں بعد جنم لیتے ہیں۔قلوپطرہ کی موت 12 اگست30قبل مسیح کوہوئی اسکندریہ میں اس کو دفن کیا گیا ہرسال ہزاروں سیاح آج بھی اس ملکہ کی آخری یاد گار دیکھنے جاتے ہیں توماضی کی کہانیاں آنکھوںکے سامنے فلم کی مانند چلنے لگتی ہیں۔