لندن (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت میں متنازعہ ذرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک کی عالمی حمایت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ دوسری طرف کسانوں نے منگل کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا ہے، اپوزیشن جماعتوں اور ٹریڈ یونینوں نے اس کی حمایت کی ہے۔
بھارت میں متنازعہ ذرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک آج بارہویں دن میں داخل ہوگئی۔ اس دوران اس تحریک کی عالمی حمایت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جبکہ کسانوں نے کل منگل کے روز ملک گیرہڑتال کی کال دی ہے۔ اٹھارہ اپوزیشن جماعتوں اور دس ٹریڈ یونینوں سمیت بینک ملازمین کی متعدد یونینوں نے بھی اس ہڑتال کی تائید کی ہے۔
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی طرف سے بھارتی کسانوں کی تحریک کی حمایت میں گزشتہ ہفتے آواز بلند کیے جانے کے بعد سے دنیا کے مختلف ملکوں میں اس تحریک کی حمایت میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
اتوار کے روز سینکڑوں افراد نے وسطی لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کے باہر مظاہرہ کیا اور پھر ٹریفلگر اسکوائر تک مارچ بھی کیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ مودی حکومت دہلی کی سرحدوں پر بیٹھے ہوئے کسانوں کی پریشانیوں کو سنے اور ان کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرے۔ بھارتی ہائی کمیشن کے ایک افسر کے مطابق مظاہرین نے ‘بھارت مخالف‘ نعرے بھی لگائے۔ کووڈ۔19سے متعلق ہدایات کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے لندن پولیس نے 13افراد کو گرفتار بھی کیا ہے۔
امریکی شہر سین فرانسسکو میں بھی غیر مقیم بھارتی شہریوں نے کسانوں کی حمایت میں ریلی نکالی۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے بھی کسانوں کی حمایت کی خبریں موصول ہوئی ہیں۔ برطانیہ کی مختلف سیاسی جماعتوں کے 36 اراکین پارلیمان نے کسانوں کے مظاہروں کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے برطانوی وزیر خارجہ ڈومنک راب کو ایک مشترکہ خط لکھ کر اس معاملے کو بھارت کی نریندر مودی حکومت کے ساتھ اٹھانے کی اپیل کی ہے۔
دنیا کے دیگرممالک میں بھی بھارتی کسانوں کے مطالبات کے حق میں سوشل میڈیا پر مہم چلائی جارہی ہے۔ دوسری جانب باہمی تعلقات متاثر ہونے کے دہلی کے انتباہ کے باوجود کینیڈا کے وزیر اعظم نے ایک بار پھر کسانوں کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
اس دوران اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے بھی بھارتی کسانوں کی حمایت میں ایک اہم بیان دیا ہے۔ انٹونیو گوٹیرش نے کہا ”جہاں تک بھارت کا معاملہ ہے، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ، جیسا کہ پہلے بھی کہتا رہا ہوں ،عوام کو پرامن مظاہروں کا پورا حق حاصل ہے اور حکام انہیں ایسا کرنے دیں۔”
گزشتہ بارہ دنوں سے قومی دارالحکومت کی تمام سرحدوں کا تقریباً محاصرہ کرنے والے کسانوں اور حکومت کے درمیان تعطل کو ختم کرنے کے لیے بات چیت کے پانچ ادوار عمل میں آچُکے ہیں تاہم اب تک کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ چھٹے دور کی بات چیت 9 دسمبر کو ہونے والی ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ جب تک حکومت متنازعہ کسان مخالف قوانین کو واپس نہیں لیتی اس وقت تک وہ دھرنے پر بیٹھے رہیں گے۔ گوکہ حکومت نے قوانین میں بعض ترامیم کا عندیہ دیا ہے تاہم کسان قوانین کو پوری طرح واپس لینے سے کچھ بھی کم تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
قومی دارالحکومت کی سرحدوں پر بیٹھے کسان مظاہرین کا کہنا ہے کہ متنازعہ قوانین واپس لینے تک احتجاج جاری رہے گا اور وہ چھ ماہ کی تیاری کے ساتھ آئے ہیں۔
کسانوں نے منگل 8 دسمبر کو ملک گیر ہڑتال کی اپیل کی ہے۔ کانگریس سمیت اٹھارہ اپوزیشن جماعتوں اور دس ٹریڈیونینوں نیز بینک ملازمین کی یونینوں نے بھی ملک گیر بندی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ٹرانسپورٹ یونینیں پہلے ہی بندی کی حمایت کا اعلان کرچکی ہیں۔
آل انڈیا کسان سبھا کے قومی صدر اتول کمار انجان نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ نئے ذرعی قوانین پارلیمان میں غیر جمہوری طریقے سے اور کسی بحث اور ووٹنگ کے بغیر منظور کیے گئے۔ ان قوانین سے بھارت کی فوڈ سکیورٹی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ اس سے ہماری کھیتی۔کسانی اور کسانوں کی بربادی کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔”
کسانوں کی حمایت میں مختلف ایوارڈ یافتگان کی طرف سے ایوارڈ واپس کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
اولمپک میں باکسنگ میں بھارت کے لیے پہلا میڈل جیتنے والے باکسر وجیندر سنگھ نے دہلی میں سنگھو بارڈر پر کسانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت ان ‘سیاہ قوانین‘ کو واپس نہیں لیتی ہے تو وہ ملک کا اعلی ترین اسپورٹس ایوارڈ’راجیو گاندھی کھیل رتن‘ واپس کردیں گے۔
1980ء کے اولمپک ہاکی گولڈ میڈلسٹ کھلاڑی گرمیل سنگھ نے اس موقع پر کہا کہ انہوں نے ایوارڈ واپس کرنے کے لیے بھارتی صدر سے وقت مانگا ہے۔ اگر صدر رام ناتھ کووند نے وقت نہیں دیا تو وہ اپنا ایوارڈ راشٹرپتی بھون کے دروازے پر رکھ دیں گے یا وہاں سے گزرنے والے کسی شخص کو سونپ دیں گے۔
خیال رہے کہ چند دنوں قبل پنجاب کے سابق وزیر اعلی پرکاش سنگھ بادل نے ذرعی قوانین کی مخالفت اور کسانوں کی حمایت کرتے ہوئے بھارت کا دوسرا اعلی ترین سویلین ایوارڈ ‘پدم وبھوشن‘ حکومت کو واپس کردیا تھا۔