بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) سفارتی امور کے ماہرین کے مطابق مشرق وسطی میں حالیہ سیاسی تبدیلیوں کے پس منظر میں بھارتی آرمی چیف کا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا پہلا دورہ کئی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
بھارت آرمی چیف جنرل منوج مکند نروانے ان دنوں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دورے پر ہیں۔ یہ بھارت کے کسی فوجی سربراہ کا ان عرب ملکوں کا پہلا دورہ ہے۔ متحدہ عرب امارات سمیت کئی عرب ملکوں کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے قیام نیز اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے سعودی عرب کے دورے کے پس منظر میں جنرل نروانے کے اس دورے کو کافی اہم قرار دیا جارہا ہے۔
بھارت نے متحدہ عرب امارات اور دیگر عرب ملکوں کے ساتھ اسرائیل کے معمول کے تعلقات قائم ہونے کا خیرمقدم کیا ہے۔ بھات کا کہنا ہے کہ یہ پیش رفت مغربی ایشیا، جسے وہ اپنا ‘وسیع تر پڑوسی‘ قرا ردیتا ہے، میں امن اور ترقی کی اس کی کوششوں کے عین مطابق ہے۔
سعودی عرب میں کئی برسوں تک سفارتی خدمات انجام دینے والے سابق بھارتی سفارت کار ذکر الرحمان نے آرمی چیف جنرل نروانے کے دورے کے حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ‘اچھی ابتدا‘ ہے۔
ذکر الرحمان کا کہنا تھا کہ ”اس پہلے دورے سے کسی اسٹریٹیجک معاہدے کی توقع نہیں رکھنی چاہیے لیکن یہ ایک مثبت اور اچھا آغاز ہے۔ یہ دونوں عرب ممالک کے ساتھ سکیورٹی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی بھارت کی خواہش کا مظہر ہے۔ اور یہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے گزشتہ سال بھارت کے دورے کے دوران ایک اسٹرٹیجک پارٹنرشپ کونسل کے قیام کے فیصلے کے عین مطابق ہے۔”
سابق بھارتی سفارت کار ذکرالرحمان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب یا دیگر عرب ملکوں کے ساتھ بھارت کے تعلقات کو پاکستان کے حوالے سے دیکھنا درست نہیں ہوگا۔
ذکرالرحمان کا کہنا تھا ”ایسا سوچنا درست نہیں ہوگا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے سعودی عرب، پاکستان کے سلسلے میں فوراً کوئی قدم اٹھالے گا۔” انہوں نے مزید کہا کہ ”وہ(سعودی) جلدی میں کوئی قدم نہیں اٹھاتے ہیں۔ وہ تعلقات قائم کرنے کے سلسلے میں کافی سنجیدگی سے غور کرتے ہیں اور پھر کسی فیصلے پر آہستہ آہستہ آگے بڑھتے ہیں۔ یہ سوچنا کہ وہ یکدم سے پاکستان کو الگ کردیں گے، غلط ہوگا۔ وہ نہ تو ایسا سوچ رہے ہیں اور نہ ہی ہمیں اس طرح سوچنا چاہیے۔”
سابق بھارتی سفارت کار کے مطابق یہ دونوں ملکوں کے درمیان سنجیدہ گفتگو کا آغاز ہے۔ اب یہ گفتگو کیسے آگے بڑھتی ہے، یہ بعد کی بات ہے۔ ”وہ ہر چیز کو اپنے قومی مفاد کے حوالے سے دیکھتے ہیں، ہمیں بھی اپنے قومی مفاد کے حوالے سے دیکھنا چاہئے۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہمارا وسیع تر مفاد کیا ہے۔” اس حوالے سے ذکرالرحمان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور بھارت کے درمیان دفاعی شعبے میں باہمی تعاون کی کافی گنجائش موجود ہے اور ہمیں اس پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔
سابق بھارتی سفارت کار نے بتایا کہ جنرل نروانے نے اپنے دورے کے دوران سعودی عرب کے نیشنل ڈیفنس کالج میں خطاب کیا۔ انہوں نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں اعلٰی سکیورٹی حکام کے ساتھ باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ ذکرالرحمان کے مطابق ان کے اس دورے کے نتیجے میں سعودی آرمی چیف کے دورہ بھارت کے امکانات بھی روشن ہوگئے ہیں۔
سعودی عرب بھارت کا ایک اہم تجارتی شراکت دار اور بھارت کی انرجی سکیورٹی شعبے کا اہم ستون بھی ہے۔ سعودی عرب بھارت کی خام تیل کی 17فیصد یا اس سے زائد اور ایل پی جی کی 32 فیصد ضروریات پوری کرتا ہے۔
دونوں ملکوں نے 2014 ء میں دفاعی تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت مشترکہ دفاعی پیداوار اور مشترکہ فوجی مشقیں بالخصوص بحری مشقوں کے امکانات تلاش کرنے کی بات کی گئی ہے۔
بھارت اور متحدہ عرب امارات نے نومبر 2020 ء میں ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان سرمایہ کاری میں سہولت فراہم کرنے اور اقتصادی تعلقات کو مستحکم کرنے کے راستے تلاش کیے جائیں گے۔
گزشتہ ماہ نئی دہلی نے سرمایہ کاری کے حوالے سے بھارت۔ متحدہ عرب امارات جوائنٹ ٹاسک فورس کی آٹھویں میٹنگ کی میزبانی کی تھی۔ کووڈ 19 کی وبا کی یہ وجہ سے یہ میٹنگ ورچوئل فارمیٹ میں منعقد کرنا پڑی۔ اس جوائنٹ ٹاسک فورس کا قیام 2012 ء میں ہوا تھا۔
خیال رہے کہ عرب ممالک میں رہنے والے نوے لاکھ بھارتی تارکین وطن کی بہت بڑی اکثریت انہیں دو ملکوں میں رہتی ہے۔ بھارت نے حالیہ برسوں میں ان ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دینے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ ان کے درمیان دفاعی اور سکیورٹی تعاون بالخصوص انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں باہمی تعاون میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی آرمی چیف جنرل نروانے کے دورے کو اسی کی ایک کڑی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
سابق بھارتی سفارت کار ذکرالرحمان کا کہنا تھا کہ اس دورے کو باہمی تعلقات کے استحکام کے حوالے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ابھی یہ پہلا قدم ہے۔ لیکن مستقبل بہت روشن ہے۔