انسانی آوازیں سدا فضائوں میں ارتعاش پیدا کرتی رہتی ہیں اور ہمیں یادوں کی کہکشاں کا مسافر بناتی رہتی ہیں۔یادیں خوبصورتی کا مرقع ہوتی ہیں اور ان سے ہماری خوشیاں وابستہ ہوتی ہیں۔ جو الفاظ ہم ادا کرتے ہیں اور جن اعمال کے ہم سزاوار ہوتے ہیں ساری حیاتی اس کائنات میں ہماری پہچان بنتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ انسان کی حقیقی پہچان اس کے فکرو عمل کا وہ جوہر ہے جو اسے تابندگی بخشتا ہے۔کسی کے پاس یا دور ہونے سے انسانی عظمت میں ذرہ برابر کمی نہیں ہوتی۔اس کائنات میں ایسے بہت سے انسان ہوگزرے ہیں جھنیں ہم کبھی دیکھ نہیں پاتے، مل نہیں پاتے لیکن ان کی عظمت کا عکس ہماری ذات پر اپنے گہرے نقوش ثبت کر تا رہتا ہے۔وہ اپنی علمی وجاہت میں اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ ہم ان کی وجاہت کے نور میں مقید ہو جاتے ہیں ۔ہم ان سے اکتسابِ علم کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، ان سے متاثر ہوتے ہیں اور اپنی زندگیوں میں ان کیاجلے کرادر کی روشنی بھرنے کے جتن کرتے ہیں۔ایسے انسان ہست و بود کے فلسفہ سے ماوراء ہوتے ہیں۔
ایک وقت آ جاتا ہے جب کسی مہان انسان کی جسمانی موجودگی بے معنی ہوجاتی ہے کیونکہ اب وہ اپنے خدوخال سے نہیں بلکہ اپنے جوہرسے وقت کے ایوانوں میں اپنا احساس اجاگر کرتا ہے لہذایسی پر اثر شخصیت کو نظر انداز کر کے گزر جانا ممکن نہیں ہوتا ۔ایسی دل آویز شخصیت کی عملی وجاہت اور کردار کی عظمت ہر سمت سے ہمیں آوازیں دیتی ہے اور ہم غیر ارادی طور پر ان آوازوں پر لبیک کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ دنیا ائے ادب کی عظیم ترین ہستی علامہ اقبال نے سات صدیوں کے زمانی بعد کے باوجود مولانا روم کو اپنا روحانی مرشد تسلیم کیا تھا اور ان کی فکری اڑان سے اپنی شعرہِ آفاق تصنیف (جاوید نامہ) کی تزئین و آرائش کی تھی جس پر دنیا عش عش کر اٹھی تھی۔یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ زمان و مکان کی دوریاں انسانوں کے فکری اشتراک میں سدِ راہ نہیں بنا کرتیں بلکہ وقت ان کی فکری اڑان کے پروں میں سمٹ جاتا ہے جس سے وہ ایک ہی دور کے انسان محسوس ہو نے لگتے ہیں۔ ،۔
خوش قسمت ہیں وہ انسان جن کا واسطہ کسی ایسے انسان سے پڑ جائے جو سچا ہو ،جو بہادر ہو،جو ایثار کا پیکر ہو،جو یاروں کا یار ہو،جو وقتِ ابتلاء کھڑا رہنے کا ہنر جانتا ہو،جو سچ کو سچ کہنے کا حوصلہ رکھتا ہو ،جو راہِ حق میں مال و دلت لٹانے کا جذبہ رکھتا ہو اور جواپنے یاروں کی خوشنودی میں اپنی خوشی کا متلاشی ہو۔قحط الرجال کے اس دور میں ایسے افراد کا مل جانا کسی نعمت سے کم نہیں ہے لیکن ایسے افراد ہمہ وقت ہمارے چاروں طرف موجود رہتے ہیں جن کی وجہ سے یہ دنیا انتہائی خوبصورت دکھائی دیتی ہے۔ایسے لوگ اس کائنات کا حسن ہوتے ہیں، یہ بے لوث ہوتے ہیں اور اپنی ذات کے حصار سے بہت بلند ہوتے ہیں۔ان کی بلند قامتی کے سامنے دنیا دار انتہائی پستہ قد نظر آتے ہیں۔وہ ہم جیسے ہی ہوتے ہیں لیکن ہم سے مختلف ہوتے ہیں،وہ ہماری طرح اٹھتے بیٹھتے اور کھاتے پیتے ہیں لیکن ہم سے انتہائی ارفع ۔بلندی کا یہ اعزاز ا ان کے اعلی اوصاف کی بدولت ان کا مقدر بنتا ہے۔ہر کوئی میرے لکھے گے سچ کی گواہی دیگا کہ ایسے افراد خال خال پیداہوتے ہیںلیکن جب پیدا ہوتے ہیں تو کائنات میں اتعاش پیدا کر دیتے ہیں۔ان کے اوصاف کی وجہ سے دنیا ان کی جانب ملتفت ہو تی اور انھیں اپنے گلے کا ہار بنا تی ہے۔وہ کسی صلے کی تمنا کئے بغیر اہلِ جہاں کی حاجت روائی کا فریضہ سر انجام دیتے ہیںاور یوں ہر دل میں گھر کر جاتے ہیں۔،۔
انسانوں کے اپنے درجات اور مراتب ہوتے ہیں۔کوئی بین ااقوامی شخصیت کا حامل بنتا ہے تو کوئی ملکی سطح پر اپنا پرتو قائم کرتا ہے،کوئی چھوٹی بستی کا ان داتا قرار پاتا ہے تو کوئی دوستوں کی محافل کی جان بنتا ہے ۔ ایک دفعہ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے میرے انتہائی قابلِ احترام دوست آفتاب احمد خان نے کہا تھا کہ کسی انسان کی اس سے بڑی خوش بختی کوئی اور نہیں ہو سکتی کہ وہ جب اپنے دوستوں کے ہاں جائے تو اس کے دوست اسے عزت و احترام کی سب سے اعلی مسند پر بٹھا دیں ۔اپنی مختصر زندگی کے شب وروز میں میرا ہزاروں انسانوں سے واسطہ پڑا ۔زندگی کے اس سفرمیں سچائی کے پیکر بھی دیکھے ،مکرو فن کے رسیاء بھی دیکھے،وعدہ ایفائوں کے روپ سے بھی آشنائی پائی، وعدوں شکنوں کو بھی قریب سے دیکھا ،الفاظ کی حرمت پر جان دینے والوں کی سنگت بھی نصیب ہو ئی ، الفاظ سے مکر جانے والوں کا رنگ بھی دیکھا،خطا کاروں کی انجمن آرائی بھی دیکھی اور پھر پارسائوں کی محفل کا نور بھی مقدر بنا ۔غریبوں کا دکھ درد بھی د یکھا ،امراء کی حجت بازی بھی دیکھی،دولتمندوں کا غرورو تکبر بھی دیکھا اور دولت سے محروموں کی بے بسی بھی دیکھی،دولت کے دیوانے بھی دیکھے اور دولت کو پرِ کاہ سے زیادہ اہمیت نہ دینے والے دریش منش انسان بھی دیکھے۔
رشتوں کے تقدس کا احساس کرنے والے بھی نظروں سے گزرے اور پھر رشتوں کا مذا ق اڑانے والوں سے بھی واسطہ پڑا ۔کوئی شہرت کا بھوکا، تو کو کوئی دولت کا پجاری ،کوئی عہدوں کا متلاشی،تو کوئی خود نمائی کا شوقین۔سچ تو یہ ہے کہ گوناں گوںخصوصیات کے حامل انسان اس کرہِ ارض کی زینت ہیں لیکن باعثِ حیرت ہے کہ انسان سدا سے سچائی اور کردار کا ہی جویا رہا ہے۔کردار بڑا ہو یا کردارچھوٹا ہو اسے دوام تبھی ملتا ہے جب یہ انصاف کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے اور وہاں یہ پورا اترتا ہے۔نیکی اور بدی اس کرہِ ارض کی دو متحارب قوتیں ہیں لیکن جیت تو نیکی کی ہوتی ہے،پانی کو سدا اترائی کی جانب ہی بہنا ہے۔کوئی جتنا جی چاہے زور لگا لے وہ جھوٹ کو سچ قرار نہیں دے سکتا۔
جھوٹ کی مدد سے حاصل کردہ وقتی جیت کبھی ابدی جیت قرار نہیں پا سکتی کیونکہ جھوٹ کا بھا نڈا تو ایک دن بیچ چوراہے میں پھوٹ کر رہنا ہوتاہے۔دنیا کا کرپٹ ترین انسان بھی دھوکے ،مکر،فریب اور جھوٹ سے حا صل کردہ فتح کو مکروہ قرار دے دیتا ہے۔شائد یہی وجہ ہے کہ یورپ جیسے بے راہرو معاشرے میں جھوٹ کو سب سے بڑی لعنت قرار دیا گیا ہے۔وہاں پر جسم فروشی کوئی قابلِ مواخذہ فعل نہیں ہے لیکن جھوٹ کو قابلِ مواخذہ قرار دیا گیا ہے کیونکہ جھوٹ ہر برائی کی جڑ ہوتا ہے۔سابق امریکی صدر بل کلنٹن کا امریکی پارلیمنٹ میں محض اس وجہ سے مواخذ ہ ہوا تھا کہ بل کلنٹن نے لیو وینسکی سے اپنے جنسی تعلق کے معاملہ پر جھوٹ کا سہارا لیا تھا۔،۔
اس دنیا میں آنے والے ہر متنفس کو ایک دن اس دنیا سے رخصت ہو نا ہے۔رخصتی کے اس سفر سے کسی کو کوئی مفر نہیں۔(کل نفس ذائقة الموت ) ایک ابدی حقیقت ہے لیکن دیکھنا ہو گا کہ رخصتی کا یہ سفر کیسا تھا اور انسان ہونے کی جہت سے جو ذمہ داری اس کے سپرد کی گئی تھی وہ اس سے کس طرح عہدہ براء ہواتھا؟موت و حیات کی اس کشمکش میں ہر ایک کو راعیِ ملکِ عدم بننا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ رخصت ہونے والے نے کردار کا وہ کون ساورثہ چھوڑاتھاجو قابلِ فخرٹھہراتھا ؟میرے انتہائی قریبی دوست انعام الحق کا سفرِ زندگی چند دن قبل اپنے انجام سے ہمکنار ہوا جو میرے دل پر غم کا ایسا نقش ثبت کر گیا جسے مٹانا میرے لئے ممکن نہیں ۔ اس کی خوبیوں،احسانات اور نیکیوں کا دائرہ اتنا وسیع تھا کہ اس کے ساتھ گزارے لمحے مجھے آج بھی اس کی عظمت کی یاددلا رہے ہیں۔
اس کی پیشانی پر اس کی عظمتوں کی لاٹ سداروشن رہتی تھی۔ وہ ایک ایسا انسان تھا جس کی ساری حیاتی دوستوں کی خو شنودی ،دلجوئی اور محبت کی کھلی داستان تھی۔وہ محبتوں کی جس داستان کو خونِ دل سے رقم کر گیا وہ انتہائی دلکش تھی ۔وہ یاروں کا یار تھا اور سچائی کا جویا تھا۔اس کی زندگی عشقِ رسول ۖ کی منہ بولتی تصویر تھی۔وہ اپنے افعال و کردار میں لاجواب تھا لہذاسے بھول جانا ممکن نہیں ہے ۔وہ اپنی سچائی،محبت،بلند ہمتی،اعلی ظرفی ،بے داغ کردار ، بے لوث جذبوں اور جاں فزاللکار کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہے گا ۔ خدائے بزرگ و بر تر اسے اپنی رحمتوں کے بے پایاں سمندر سے نوازے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ۔(آمین)۔(آسماں اس کی لحد پر شبنم افشانی کرے)
Tariq Hussain Butt
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال