خوب آزادء صحافت ہے نظم لکھنے پہ بھی قیامت ہے دعویٰ جمہوریت کا ہے ہر آن یہ حکومت بھی کیا حکومت ہے دھاندلی دھونس کی ہے پیداوار سب کو معلوم یہ حقیقت ہے خوف کے ذہن و دل پہ سائے ہیں کس کی عزت یہاں سلامت ہے کبھی جمہوریت یہاں آئے یہی جالب ہماری حسرت ہے
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آئے روز سوشل میڈیا پر قلم قبیلے کے خلاف کوئی منفی مہم چلنا یا مخالفت پر مبنی ہیش ٹیگ گردش کرنا بھی کوئی نئی خبر نہیں،اگرچہ اس معاملے میں پاکستان اور دنیا بھر میں بہت سی قدریں مشترک ہیں مگر ایک چیز ہے جو پاکستان کو مختلف بناتی ہے۔
دنیا بھر میں صحافیوں کے خلاف ایسی مہم جوئی عموماً برسراقتدار جماعت اپنے ہمدردوں اور سپوٹررز کے ذریعے ڈھکے چھپے انداز میں کرواتی ہے مگر پاکستان میں معاملہ بہت کھلے انداز میں ہوتا ہے جو کہ باقی ملکوں سے کچھ مختلف ہے۔
پاکستانی صحافت میں آج کل پوری تصویر دکھائی جاتی ہے نہ مکمل خبر سامنے آتی ہے۔ مکمل سچ مکمل کنڑول میں چلا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ سب کچھ ہمیشہ سے ایسا ہی تھا بلکہ آج پیدا ہونے والی صورتحال ایک بتدریج عمل کا نتیجہ ہے۔
اس امر میں بھی کسی شک کی گنجائش نہیں کہ ہمارے ملک میں بہت سے ضمیر کے پاسدار اور پروفیشنل صحافی موجود ہیں جو اپنے کام کے معاملے میں انتہائی پروفیشنل، مخلص اور محنتی ہیں، جو صحافت کو ایک مقدس مشن سمجھتے ہوئے اپنے ویژن کو منواتے ہیں، مگر کیا کیجئے ہمارے ملک میں بہت سے گروپ ایسے بھی ہیں جن کا قلم و قرطا س سے دور کا بھی واسطہ نہیں اور وہ حبیب جالب کے الفاظ میں قلم کو فقط ”ازاربند”ڈالنے کے لئے ہی استعمال کرتے ہیں۔
اسی میڈیا اور صحافیوں کی کشمکش میں ایک بہترین ادارے کی ضرورت تھی۔ ایمرہ کا نیوز پیپر اور ویب چینل ان تمام کام کرنے والے صحافیوں کی آواز ہے جن کی آواز دب گئی تھی یقینا یہ وقت کی ضرورت اور اہم قدم ہے جس کے لیے میں صمیم قلب سے مبارکباد پیش کرتی ہوں الیکٹرانک میڈیا رپورٹرز ایسوسی ایشن کے صدر آصف بٹ، سنیئر صحافی عظیم نزیر، سہیل اشرف،آصف چوہدری،ارسلان رفیق بھٹی، غلام مرتضی اور ناصرہ عتیق سمیت ان تمام خواتین وحضرات کو جنہوں نے اہل صحافت کی رفعت و عفت کیلئے یہ احسن اقدام اٹھایا ھے۔