ایک شخص نے اپنے دوست سے کہا یار میری بیٹی کی گروتھ رک گئی ہے بڑی ہی نہیں ہو رہی۔۔ دوست نے ہنس کرکہا یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں بیٹی کا نام مہنگائی رکھ دو خودبخود بڑی ہو جائے گی۔ کوئی مجھ سے پوچھے آج کے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ میں بغیر سوچے سمجھے جھٹ سے جواب دوںگا مہنگائی۔۔آپ دل پرہاتھ رکھ کر سوچئے کیا قیامت خیز مہنگائی نے عوام سے خوشیاں نہیں چھین لیں ۔ یقینا ایسی ہی بات ہے اب سوال یہ پیداہوتاہے مہنگائی کیوں ہوتی ہے؟ اور کنٹرول کیوںنہیں ہورہی؟ ایک تو اس کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ افراط ِ زر بڑھنے سے چیزیں مہنگی ہونا یقینی بات ہے دوسرا کسی بھی معاملے میں چیک اینڈ بیلنس نہ ہونا بھی مہنگائی کا بڑاسبب ہے دونوں صورتوں میں ساری ذمہ دار ی حکومت کی ہے جس نے عوام کو حالات کے رحم وکرم پر بے سہارا چھوڑ دیا ہے۔۔
بیشتر۔ ترقی پذیرممالک کے عوام بھی ان حالات کا شکارہیں لیکن پاکستان کا تو باوا آدم ہی نرالاہے یہاںادارے بڑے کمزوراور شخصیات انتہائی طاقتورہیں جس کی بنیادی وجہ بیوروکریسی، جاگیرداروں، سیاستدانوں اورسرمایہ دار وں کا غیراعلانیہ اتحاد ہے بلکہ بات اس سے بھی آگے جا پہنچی ہے اس طبقہ کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں اور ظاہرہے مفادات بھی ایک۔۔۔پھر بھی ایک بات نتیجہ کے طورپر سامنے آتی ہے کہ ملک میں قانون صرف کمزورکیلئے ہے بازار چلے جائیں دس دکانوں کا وزٹ کرلیں ہر دکاندار کا اپنا ریٹ ہو گا کبھی دکاندار گاہک کی بہت عزت کرتا تھا اب گراںفروشوںکو کوئی پوچھنے والا نہیں کوئی گاہک بحث کرے یا ریٹ کم کرنے پر اصرار کرے تو دکاندار ایک منٹ میں بے عزت کرکے رکھ دیتاہے مجموعی طورپر اس رویے کی وجہ سے عام آدمی جس میں خریداری کی زیادہ استظاعت نہیں اس کیلئے تو اپنی عزت بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔
حکومت کے کرتادھرتا، وزیر مشیر اور انتظامی سربراہ بھی تسلیم کرتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں مہنگائی اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکی ہے لیکن بلندبانگ دعوؤں، لمبی چوڑی تقریروں اور حکومتی انتظامات کے باوجود خوفناک بات یہ ہے کہ اس مسئلہ کو کوئی حل کرنا نہیں چاہتا شاید اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ جوپارٹی بھی برسرِ اقتدارآتی ہے یا حالات جس سیاستدان کی فیور میں دکھائی دیتے ہیں بڑے بڑے سرمایہ دار،صنعتکار، فیکٹری مالکان اسی پارٹی میں شامل ہوکر حکومت کا حصہ بن جاتے ہیں یوں ان کی سدابہار بادشاہی قائم رہتی ہے اب حکومت کارروائی کرے تو کس کے خلاف؟۔۔۔ہوشربا مہنگائی کی ایک بنیادی وجہ ہڈحرام ،نااہل اور نکھٹو سرکاری اہلکار بھی ہیں جو سرکاری دفاترمیں بیٹھ کر مکھی پر مکھی ماتے رہتے ہیں مگر اصلاح ِ احوال کیلئے کچھ کرتے ہیں نہ سائلین کی دادرسی ۔۔انہیں صرف اپنی جیبیں بھرنے کی پڑی رہتی ہے۔
ہمارا وطن ملٹی نیشنل کمپنیوں کیلئے سونے کی چڑیا بنا ہواہے یہ چیزوں کی مقدار کم کرتے جاتے ہیں قیمت وہی برقراررکھی جاتی ہے عورتیں ایک دوسرے سے کہتی ہیں پہلے واشنگ پائوڈرکا ایک پیکٹ لایا کرتی تھی اب2 لا رہی ہوں کپڑے پھر بھی نہیں دھوئے جاتے اب اس بے چاری کو کیا خبر ان ملٹی نیشنل کمپنیوں نے عوام کا خون چوسنے کے لئے مقدار کم کرکے مہنگائی کا نیا طریقہ ایجاد کرلیا ہے۔۔۔
غضب خدا کا۔۔۔ ایک ہی کمپنی ۔۔ایک ہی فارمولا ایک ہی چیز کیلئے یہ سب چیزیں انڈیا میں سستی اور پاکستان میں کئی گنا مہنگی اس کیلئے کسی ماہر اقتصادیات کو ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں عام ساکوئی بھی شخص انگلیوںپر حساب کرکے دودھ کا دودھ پانی کا پانی الگ کر سکتاہے حکومتوں کے ”رولے” الگ ہیں وزیروں مشیروںکی مصروفیات اپنی۔افسرسیاستدانوں کو خوش کرنے میں بازی لے جارہے ہیں تاکہ وہ اپنی منافع بخش اور پسندیدہ پوسٹوںپر سال ہا سال براجمان رہ سکیں اس صورت ِ حال میں غریب غرباء کی کسے فکرہے عام آدمی کی حیثیت تو اشرافیہ کے نزدیک کیڑے مکڑوں سے زیادہ نہیں۔
جناب ِ وزیر اعظم ! جناب ِ وزرا ئےِ اعلیٰ! آپ عوام کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو قیمتیں ایک سال کیلئے منجمد کر دیں اس سے مہنگائی کے بے لگام گھوڑے کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے دوسرا پرائس کنٹرول کمیٹیوںکو فعال کرنے کی اشد ضرورت ہے نیک نام ،مخیر شخصیات ،متحرک سماجی کارکنوں کو پرائس کنٹرول کمیٹیوںمیں شامل کیا جائے جو مقدار اور معیار چیک کرنے کااختیاررکھتے ہوں ان کو کچھ نہ کچھ اختیارات دینے سے مہنگائی کنٹرول کرنے میں مدد مل سکتی ہے، جناب ِ وزیر اعظم ! جناب ِ وزرا ِ اعلیٰ! ان اقدامات کیلئے سرمائے کی قطعی ضرورت نہیں بلکہ آپ کی ذرا سی توجہ سے گراںفروشوںکی کمر ٹوٹ سکتی ہے آپ تو جان و دل سے عوام کی فلاح وبہبود کرنا چاہتے ہیں لیکن جو حکومتی اقدامات کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں ان سے سب کو خبردار رہنے کی ضرورت ہے، ملکی ترقی وخوشحالی کیلئے عوام کو ریلیف اور اشیائے صرف کی قیمتوں پرکنٹرول ناگزیر ہے۔