بھارت: کسانوں کی تحریک میں’پاکستانی ہاتھ‘ نظر آ گیا

India Farmers Protests

India Farmers Protests

بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) مودی حکومت کے ایک وزیر کا کہنا ہے کہ متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج کے پیچھے ’پاکستان اور چین کا ہاتھ‘ ہے۔کسان تنظیموں اور دیگر جماعتوں نے اس بیان کی سخت مذمت کی ہے۔

متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی احتجاجی تحریک سے پیدا شدہ تعطل کو ختم کرنے کے لیے بدھ کے روز حکومت کی طرف سے پیش کردہ تجاویز کو کسانوں کی تنظیموں نے ٹھکرا دیا اور اپنی ‘جنگ‘ تیز کرنے کا اعلان کیا۔ قومی دارالحکومت کی تقریباً تمام سرحدوں کی ناکہ بندی کا آج پندرہواں دن ہے۔

مودی حکومت میں امور صارفین اور خوراک کے نائب وزیر راؤ صاحب دانوے کا کہنا ہے کہ کسانوں کے احتجاجی مظاہروں کے پیچھے دراصل پاکستان اور چین کا ہاتھ ہے۔

راؤ صاحب دانوے نے ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا،”جو تحریک چل رہی ہے، وہ کسانوں کی نہیں ہے۔ اس کے پیچھے پاکستان اور چین کا ہاتھ ہے۔ اس ملک میں پہلے مسلمانوں کو بھڑکایا گیا۔ انہیں کیا کہا گیا؟ این آر سی آ رہا ہے، سی اے اے آ رہا ہے اور چھ ماہ میں مسلمانوں کو بھارت چھوڑنا ہو گا۔ کیا ایک بھی مسلمان نے ملک چھوڑا؟”۔ دانوے نے مزید کہا،”وہ کامیاب نہیں ہوئے اور اب کسانوں کو بتایا جارہا ہے کہ انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا۔ یہ دوسرے ملکوں کی سازش ہے۔”

چند دنوں قبل ہریانہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کے وزیر زراعت جے پی دلال نے بھی الزام لگایا تھا کہ کسانوں کی تحریک کو پاکستان اور چین ہوا دے رہے ہیں۔

متعدد جماعتوں اور تنظیموں نے بھارتی وزیر کے اس بیان کی شدید نکتہ چینی کی ہے۔ بی جے پی کی سابق حلیف ہندو قوم پرست جماعت شیو سینا کے ترجمان سنجے راوت نے کہا،”اگر مودی حکومت کے کسی وزیر کے پاس کسان تحریک میں پاکستان اور چین کے ملوث ہونے کی اطلاع ہے تو حکومت کو فورا ً پاکستان اور چین پر سرجیکل اسٹرائیک کردینا چاہیے۔”

انہوں نے طنزیہ لہجے میں کہا،”بھارتی صدر، وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور تینوں افواج کے سربراہوں کو اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔”

سکھوں کی ایک بڑی تنظیم دہلی سکھ گردوارہ مینجمنٹ کمیٹی (ڈی ایس جی ایم سی) نے بھی بھارتی وزیر کے بیان کو ‘شرمناک‘ قرار دیا ہے۔

ڈی ایس جی ایم سی کے صدر مجیندر سنگھ سرسا نے ایک ویڈیو بیان جاری کر کے کہا،”کسان پرامن مظاہرے کر رہے ہیں اور حکومت انصاف کرنے میں ناکام رہی ہے۔ جو کسان خود ملک کے لیے لڑتے اور اپنی جان دیتے ہیں، اناج پیدا کرتے ہیں، جن کے بچے بھی ملک کے لیے قربان ہوجاتے ہیں، ان کو ملک دشمن دکھانے کی کوشش مت کیجیے۔ یہ شرمناک ہے۔”

کورونا وبا کی وجہ سے پہلے سے ہی بدحال بھارتی معیشت کے، کسانوں کے احتجاج کی وجہ سے مزید ابتر ہوجانے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

گزشتہ دنوں کسانوں کی اپیل پر ملک گیر ہڑتال ہوئی، جس کا سب سے زیادہ اثر پنجاب، ہریانہ اور قومی دارالحکومت دہلی پر پڑا۔ آٹھ دسمبر کو ہونے والی ہڑتال سے معیشت کو کتنا نقصان ہوا اس کا فی الحال کوئی واضح اندازہ سامنے نہیں آسکا ہے تاہم 2015ء میں اسی طرح کی ملک گیر ہڑتال کی وجہ سے 3.3 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے اقتصادیات کے پروفیسر ڈاکٹر ہمانشو نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”اس ہڑتال کے اثرات یقینی طورپر پڑیں گے۔ زرعی سپلائی پہلے سے ہی کم ہوگئی ہے اور اس کی وجہ سے افراط زر کی شرح میں اضافہ ہوجائے گا۔ زرعی مسائل مزید پیچیدہ ہوجائیں گے۔”

پنجاب فیڈریشن آف اسمال بزنسز کے صدر بادش جندل نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”اگر کسانوں کا یہ احتجاج مزید جاری رہا تو ا س سے معیشت تباہ ہونے لگے گی۔”

کسانوں کی تحریک کی وجہ سے پیدا شدہ تعطل کو ختم کرنے کے لیے مودی حکومت نے بدھ کے روز بیس صفحات پر مشتمل ایک تجویزکسانوں کے پاس بھیجی تھی۔ لیکن معاملہ پہلے سے زیادہ خراب ہوگیا۔ کسانوں نے ان تجاویز کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اپنی تحریک کو شدید تر کرنے کا اعلان کردیا۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ تینوں زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کے علاوہ سے کم پر تیار نہیں ہوں گے۔

کسانوں نے 14 دسمبر کو ملک بھر میں دھرنے دینے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ 12دسمبر کو دہلی۔ جے پور ہائی وے کو بند کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔ انہو ں نے بی جے پی کے تمام رہنماؤں، وزیروں اور قانون سازوں کا بائیکاٹ کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔

کسانوں کا کہنا ہے، ”حکومت کی تجویز میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ اگر قانون واپس نہیں لیے جاتے تو ہم دہلی جانے والے تمام راستوں کو ایک ایک کرکے بند کردیں گے۔ اس کا آغا 12دسمبر کو دہلی۔ جے پور ہائی وے کو جام کرنے کے ساتھ ہوجائے گا۔”

حکومت صورت حال سے نمٹنے کے لیے مختلف اقدامات پر غور کر رہی ہے۔ وزیر زراعت جمعرات کی شام اس حوالے سے ایک خصوصی پریس کانفرنس کرنے جا رہے ہیں۔