جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن وزارتِ داخلہ نے شامی مہاجرین کی اپنے ملک واپسی پر عائد پابندی میں اضافہ کرنے کا امکان مسترد کر دیا ہے۔ یہ پابندی شام کے جنگی حالات کے تناظر میں عائد کی گئی تھی۔
سولہ جرمن وفاقی ریاستوں کے صوبائی وزرائے داخلہ کی ورچوئل میٹنگ میں شامی مہاجرین کی ان کے وطن واپسی پر عائد پابندی کی مہلت نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ چانسلر انگیلا میرکل کی مخلوط حکومت میں شامل سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) نے اس فیصلے کی مخالفت ضرور کی لیکن فیصلہ کثرتِ رائے سے ہی کیا گیا۔ اس فیصلے کا باضابطہ اعلان نائب وزیرِ داخلہ ہانس گیؤرگ اینگلیلک نے کیا۔ شامی مہاجرین کو جرمنی سے نہ نکالنے کی یہ حکومتی پالیسی سن 2012 سے جاری تھی۔ یہ پابندی شام میں خانہ جنگی شروع ہونے کے ایک سال بعد لگائی گئی تھی۔ اس پابندی کا بنیادی مقصد ہجرت کرنے والوں کو مسلح تنازعے کے علاقے میں واپس نہ بھیجنا تھا۔
جرمن وفاقی ریاستوں کے وزرائے داخلہ کے فیصلے کے بعد اب عدالتیں شامی مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ کریں گی۔ ہر مہاجر کا مقدمہ علیحدہ علیحدہ سنا جائے گا۔ شامی مہاجرین کی واپسی یا ملک بدری کے مقدمات پہلی جنوری سن 2021 سے شروع ہوں گے۔ اُن شامی مہاجرین کو واپس نہیں بھیجا جائے گا، جنہوں نے فوجداری جرائم کا ارتکاب کر رکھا ہوا ہے۔ ایسے مہاجرین کو فوجداری مقدمات اور ان کے فیصلوں کا انتظار کرنا ہو گا۔ دوسری جانب زیریں سیکسنی کے وزیر داخلہ بورس پیسٹوریئس کا کہنا کہ شام میں ابھی بھی حالات پرتشدد ہیں اور مہاجرین کی عدالتی فیصلوں کے بعد بھی واپسی کا امکان نہیں ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ برلن حکومت کے وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر اس پابندی کو ختم کرنے کے حامی ہیں، ان کو دائیں بازو کے حلقے کی حمایت بھی حاصل رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مہاجرین کی واپسی پر عائد پابندی ختم کرنے سے بہت کم تعداد میں شامی مہاجرین کی واپسی ہو سکے گی کیونکہ وزرائے داخلہ کا اصرار تھا کہ ان مہاجرین کو واپس بھیجا جائے جو فوجداری جرائم کا ارتکاب کر چکے ہیں یا وہ جو سیاسی پشت پناہی پر جرم سرزد کر چکے ہیں، اس میں دہشت گرد بھی شامل ہیں۔ اس تناظر میں جرمن صوبے باویریا کے وزیر داخلہ یوآخم ہیرمان نے بھی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ شامی مہاجرین کی بڑی تعداد کو واپسی کا کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق ادارے یو این ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ وہ اپنے موقف پر قائم ہے اور ملک بدری یا مہاجرین کی واپسی کو اصولی بنیاد پر مسترد کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی ریفیوجی ایڈ ادارے کے سربراہ پیٹر روہناشٹروتھ کا کہنا ہے کہ شام میں سلامتی کے خطرات بدستور سنگین ہیں اور مہاجرین کی واپسی انسانی حقوق کی کمٹ منٹ کے منافی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دونوں عالمی جنگوں کی مجموعی مدت سے زیادہ شامی مسلح تنازعے نے طوالت کھینچ لی ہے۔ شام میں جاری خانہ جنگی میں پونے چار لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔