میکسیکو : محققین نے وہیل مچھلی کی ایک نئی قسم کو ڈھونڈنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ وہیل کی یہ نئی قسم جنوبی امریکی ملک میکسیکو کے ایک جزیرے کے قریبی سمندر میں دریافت ہوئی۔
ریسرچرز نے اس ممالیہ کو چونچ والی وہیل کی ایک نئی اور نایاب قسم قرار دیا ہے۔ اس کی دریافت رواں برس سترہ نومبر کو جنوبی امریکی ملک میکسیکو کے دور افتادہ جزائر کے سلسلے سان بینیٹو میں ہوئی۔ اس دریافت کو ایک اتفاقی امر قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ ماہرین کی ایک ٹیم اس سمندر میں پہلے سے دریافت شدہ ایک وہیل کو تلاش کر رہی تھی کہ انہیں یہ نایاب قسم کی وہیل مل گئی۔ ریسرچرز کی ٹیم کا تعلق ‘سی شیپرڈ کنزرویشن سوسائٹی‘ سے ہے۔ یہ ٹیم ‘پیرین‘ قسم کی وہیل مچھلی کو ڈھونڈنے نکلی تھی۔
جس ویل کی دریافت ہوئی ہے، وہ چونچ والی ہے اور لمبائی میں بقیہ وہیل مچھلیوں سے قدرے کم ہے۔ اس کی جسامت پانچ میٹر ماپی گئی ہے۔ اس کا منہ ڈولفن کی طرح قدرے نوکیلا اور تھوتھنی رکھتا ہے۔ اسے پکڑنے کے بعد سائنسدانوں کو احساس ہوا کہ جو مچھلی انہوں نے پکڑی ہے، اس کے دانتوں کی ساخت اور دانتوں کی دہانے میں جگہ، پیرین وہیل سے خاصی مختلف ہے۔ اس وہیل مچھلی کے دریافت ہونے کی تصدیق سمندروں کے بارے امریکی تحقیقی ادارے این او اے اے (NOAA) نے بھی کر دی ہے۔ اس ادارے کے مچھلیوں سے متعلق سینیئر ریسرچر ڈاکٹر جے بارلو کا کہنا ہے کہ یہ پہلے سے دریافت شدہ پیرین وہیل نہیں بلکہ ایک نئی قسم ہے اور اس کے بارے میں مزید تحقیق ضروری ہے۔
سمندری حیات کے ماہر اینڈریو ریڈ کا کہنا ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک انتہائی نایاب وہیل مچھلی انسانوں کے ہاتھ لگی ہے۔ ریڈ کے مطابق یہ ایک انتہائی مختلف شے ہے، جس کی دریافت ایک پرمسرت موقع اور ایک شاندار کارنامہ ہے۔ اس نو دریافت شدہ وہیل کے ڈی این اے ٹیسٹ شروع کر دیے گئے ہیں۔ اینڈریو ریڈ کا بھی موقف ہے کہ ڈی این اے ہی ایک واحد راستہ ہے جو دریافت شدہ مچھلی کی مکمل جینیاتی شناخت فراہم کرے گا۔ اگر یہ تصدیق ہو جاتی ہے کہ یہ ایک نئی قسم کی وہیل مچھلی ہے تو ان بڑی جسامت کی مچھلیوں کی اقسام کی تعداد چوبیس ہو جائے گی۔ سینیئر محقق ڈاکٹر جے بارلو نے کہا ہے کہ اتنی بڑی جسامت کی سمندری حیات کا ابھی تک انسانی آنکھ سے مخفی رہنا، حیرت کا امر ہے۔