آج کل کار زارِ سیاست میں ہر سو بد گمانیوں کا راج ہے۔قوم جتنی منتشر آج ہے شائد ا اس سے پہلے اتنی منتشر کبھی نہیں تھی۔کوئی فریق کسی دوسرے فریق کی بات سننے کے لئے آمادہ نہیں ہے۔ ہر سو ضد اور ہٹ دھرمی کی تکلیف دہ کیفیت کا راج ہے جہاں پر ہر کوئی اپنی اپنی ڈفلی بجا نے میں فخر محسوس کر رہا ہے۔قوم اس وقت مختلف گروہوں میں بٹ چکی ہے،اس کی سمت کا کہیں اتہ پتہ نہیں ہے،اس کی منزل کہیں گم ہو گئی ہے اور اس کاحال اس کے انتشار کا آئینہ دار بنتا جا رہا ہے۔جس کو دیکھو وہی افلاطون بنا ہوا ہے۔اخلاقی گراوٹ اپنی انتہائوں کو چھو رہی ہے ۔ سیاستدان مذاق بن کر رہ گے ہیں اور سیاست نا پسندیدہ عمل قرار پا رہی ہے۔ایک دوسرے پر فقرہ بازی کا ماحول اپنے پورے عروج پر ہے ۔لگتا ہے رہبر وں کی بجائے مسخروں کا ٹولہ سیاسی اور حکومتی فرائض سر انجام دے رہا ہے۔ ٹیلیویژن کی سکرینیں بریکنگ نیوز کی شکل میں مسخروں کی فن کاری کو طشت از بام کر رہی ہیں۔اس بات پر مقابلہ ہے کہ کون کتنی گھٹیابا ت کرتا ہے۔
کون کتنا دوسرے کو برہنہ کرتا ہے،کون کتنادوسرے کی پگڑی اچھالتا ہے،کون کتنادوسرے کی جگ ہسائی کا سامان فراہم کرتا ہے، کون کتنا دوسرے کو ذلیل کرتا ہے، کون کتنا دوسر ے کو نیچا دکھاتا ہے،کون کتنی بے ہودگی کا مظاہرہ کرتا ہے،اور کون کتنی کج فہمی کا اظہار کرتا ہے؟ بیانیہ ایک ہی ہے کہ خود کو پارسا اور اپنے مخالف کو گھٹیا اور کمینہ ثابت کرنا ہے۔کاش کبھی ایسا ہوتا کہ اس بات پر مقابلہ ہوتا کہ کون کتنی پر مغز گفتگو کرتا ہے؟کون کتنی فہم و فراست کا مظاہرہ کرتا ہے اور کون کتنی عزت و احترام کی کہکشاں سجاتا ہے لیکن بسا آرزو کہ خاک شدی ۔حکومتی ترجمانوں کا حال اگر نا گفتہ بہ ہے تو اپوزیشن بھی کسی سے کم نہیں ہے۔اس نئے تخلیق شدہ ماحول میں نئی نسل کے اخلاق تباہ ہو رہے ہیں ۔گنڈاسے اور ڈانگ سوٹے سے لیس دونوں فریق کسی وقت ایک دوسرے پر پل پڑیں گے تو کون بچانے آئیگا ؟ اپوزیشن حکومت کی رخصتی پر بضد ہے تو حکومت اپوزیشن کو نیچا دکھانے کے لئے بے چین ہے۔ازلی دشمن سر پر کھڑا ہے لیکن سیاسی قائدین ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں ۔کسی کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ وطنِ عزیز مشکلات میں گھر ا ہوا ہے اور اسے صرف اتحا دو یگانگت سے ہی بحرانی کیفیت سے نکالا جا سکتا ہے۔،۔
کورونا وائرس کی تباہ کاریاں تو اپنی جگہ پر ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ معیشت اور بے روزگاری کی اذیت ناک کیفیت نے عوام کا جینا محال کر رکھا ہے۔پاکستان اپنی داخلی ،خارجی اور سفارتی سطح پر اپنا مقام اور وقار کھوتا جا رہا ہے۔بھارتی ریشہ دوانیاں ، سازشیں اور دخل اندازیاں پاکستان کے امن و استحکام پر کاری ضربیں لگا رہی ہیں۔دہشت گردی کی کاروائیاں معمول کا حصہ بن گئی ہیں جبکہ سرحدوں پر گولہ باری اور چھیڑ خانی روزمرہ کا معمول بن چکاہے ۔بھارت اپنی طاقت کے گھمنڈ کا اسیر ہے۔وہ اپنی آنکھوں میں خطے کی منی سپر پاور بننے کا خواب سجائے ہوئے ہے ۔امریکہ ، یورپ۔مڈل ایسٹ اور دسرے ایشیائی ممالک کی حمائت و سر پرستی اس کے پندارِ نفس کو مزید ہوا دے رہی ہے۔ وہ دن بدن زیادہ متشدد ہو تا جا رہا ہے۔پاکستان اس کا نشانہ ہے اور وہ اس سے رتی برابر بھی تغافل نہیں کر رہا۔آگ و خون میں لپٹی ہوئی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ بھارت پاکستان کے وجود سے خائف ہے۔وہ اسے مٹانے کے جتن کرتا رہتا ہے، وہ اسے نیچا دکھانے کے خواب سجائے رہتا ہے اور وہ اسے کمزور کرنے کا کوئی موقعہ ضائع نہیں کرتا۔ اعصاب کی ایک جنگ ہے جو دونوں ممالک کے درمیان جاری ہے۔پاکستانی عوام بھارتی سپر میسی کو کسی بھی حال میں تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔وہ بھارتی جارحیت کو نیچا دکھانے کی خاطر اپنا سب کچھ نچھاور کر سکتے ہیں۔
قیامِ پاکستان کے وقت بھارتی درندوں نے جس سفاکیت کا مظاہرہ کیا تھااس کے پیشِ نظر وہ کسی رو رعائت کے مستحق نہیں ہیں۔ان بھیڑ یوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہی قومی پالیسی ہے اور پوری قوم اس قومی پالیسی کی حامی ہے۔جان جائے پر وچن نہ جائے پاکستانی قوم کے دل کی پکار ہے۔بھارت کے نام پر پا کستانی عوام کا خون ایسے ہی تو نہیں کھولتا۔ ١٩٤٧ کے بٹوارے میں بھارتی وحشیوں نے جس طرح معصوم اورنہتے مسلمانوں کا قتلِ عام کیا تھا اور ان کی بہو بیٹیوں اور مائوں کو اپنی کرپانوں پر اٹھا یا تھا اس کا حساب ہونا ابھی باقی ہے۔کبھی کبھی حساب لینے میں صدیاں لگ جاتی ہیں لیکن حساب فرض رہتا ہے۔ہماری بہو بیٹیوں کی چیخیں تاریخ کے ایوانوں میں امانت کے طور پر رکھی ہوئی ہیں۔پاکستانی قوم کو جب بھی موقعہ ملے گا وہ اس کا حساب ضرور چکتا کرے گی ۔ تقسیمِ ہند کے وقت پنجاب کا خطہ قتل و غارتگری کا میدان بنا تھا تو آج کشمیر کا خطہ قتل و غارت گری کا گڑھ بن چکا ہے۔
سولہ ماہ سے بے رحم کرفیو کی کیفیت میں بھارتی سپاہ کشمیری قوم پر ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑ رہی ہے وہ بیان سے باہر ہے ۔ پاکستانی حکومت اپنی کمزور معاشی اور دفاعی پوزیشن کی وجہ سے بھارت کو کرارہ جواب دینے سے عار ی ہے۔وہ اپنی کمزور دفاعی اور معاشی کیفیت کی وجہ سے کشمیریوں پر ہونے والے ظلم پر خاموش ہے حا لا نکہ پاکستانی قوم بھارت کا کھلے میدان میں مقابلہ کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔وہ ریاستی مجبوریوں کی پرواہ کئے بغیر بھارت کو للکارتی رہتی ہے ۔پاکستانی قوم کے لئے بھارت کی فوجی اور جنگی اہلیت کوئی معنی نہیں رکھتی۔وہ اپنے جذبِ دروں سے بھارت کو زیر کرنے کاجو جنون پالے ہوئے ہیں ایک دن اسی نے بھارتی گھمنڈ کو خاک میں ملانا ہے۔،۔
اگر ہمارے ناعاقبت اندیش حکمران قومی حمیت سے مرصح اور غیرت میں گندھے ہوئے قومی جذبوں سے بے خبر ہیں تو کم از کم اس بات پر تو متفق ہو جائیں کہ بھارت کشمیریوں پر جبرو ستم کے جو پہاڑ توڑرہا ہے اس پر ہمیں خاموش تماشائی نہیں بننا تو شائد ہم کسی منزل پر پہنچ جائیں ۔کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور یہ شہ رگ ہمارے سب سے مکار دشمن کے ہاتھ میں ہے۔بیو قوف دوست سے دانا دشمن بہتر ہو تا ہے لیکن ہمارے ہاں تو دوست بھی بیوقوف ہے اور دشمن بھی انتہائی کینہ،مکار اور سفاک ہے ۔ اگر ہم نے اپنی صفوں میں اتحادو یگانگت کا مظاہرہ نہ کیا تو ہماری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔اقتدار کی جنگ اپنی جگہ مسلمہ ہے ۔ سیاست کا بنیادی جوہر اور اصول اقتدار کا حصول ہوتا ہے لیکن کیا چند روزہ اقتدار کی خاطر اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیا جائے اور ملکی سلامتی سے آنکھیں بند کر لی جائیں۔پاکستان کا مقدر کشمیر سے جڑا ہوا ہے لہذا کشمیر سے ہماری وابستگی کسی شک و شبہ سے بالا تر ہو نی چائیے ۔ کشمیریوں کی جد و جہد وقت کے ایوانوں میں ہماری حمائت کیلئے سر گرداں ہے۔
ہمیں آگے بڑھ کر ان کا ہاتھ تھامنا ہو گا،انھیں بھارت کے پنجہِ استبداد سے بچانا ہو گا ،ان کی دلجوئی کرنی ہو گی ،انھیں پر امن اور آزاد فضا مہیاکرنی ہو گی ،ان کے شانہ سے شانہ ملانا ہو گا،دشمن کی عسکری برتری کے باوجود اس کا آہنی ہاتھ مروڑنا ہو گا اور کشمیریوں کو یقین دلانا ہو گا کہ ہم ہر قسم کے نامساعد حالات میں ان کے ساتھ ہیں۔ان سے ہماری وابستگی ادھورے خواب کو کو مکمل کرنا ہے۔کشمیر بابائے قوم کا خواب ہے اور یہ خواب اسی وقت پایہ تکمیل کو پہنچے گا جب پوری قوم متحد ہو کر بھارتی استبداد کے سامنے کھڑی ہو جائیگی ۔قوم کو اس وقت کسی ایسے راہنما کی اشد ضرورت ہے جو پوری قوم کو متحد کر سکے۔قوم کا اتحاد ہی کشمیر کی آزادی کی نوید بن سکتا ہے لیکن یہ اتحاد کیسے ممکن ہو سکے گا؟ حالیہ سیاسی منظر نامے میں تو اتحاد کی بجائے تصادم کا راج ہے جو ہمیں مزید کمزور کر دیگا اور بھارت کو خوشی کے شادیانے بجائے کا موقعہ فراہم کریگا۔،۔
Tariq Hussain Butt
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلس قلندران اقبال