لاہور میں پی ڈی ایم کا جلسہ کیسا تھا اس کا فیصلہ عوام خود کر لیں گے کیونکہ اپوزیشن تعداد لاکھوں میں بتا رہی ہے اور حکومت ہزاروں میں مگر ایک بات طے ہے کہ اس جلسہ کے بعد کوئی آر ہوا نہ کوئی پار بس وہ ہو گیا جس کی توقع کسی کو نہ تھی کیونکہ پی ڈی ایم کے قائدین نے اپنے آغاز سے لیکر مینار پاکستان والے آخری جلسہ تک استفے لینے کی بات کی تھی مگر اچانک پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں کے قائدین نے اپنے استفے دینے کا اعلان کردیا آخر وجہ کیا بنی کہ وہ تو سبھی کے سبھی استعفے لینے نکلے تھے اور اپنے آخری جلسہ میں سبھی نے استعفے جمع کروانے کا اعلان کردیا ان استعفوں پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا اپنا اپنا موقف ہے اور اپوزیشن کا یہ آخری پتہ تھا جو انہوں نے اپنے آخری جلسہ میں کھیل لیا پی ڈی ایم کا استعفی کارڈ فلاپ ہو گیا۔
پی ڈی ایم نے دباؤ کے لیے استعفوں کا کارڈ کھیلا جو بری طرح ناکام ہوگیا اور اب انکے پاس سوائے لانگ مارچ کے زریعے اسلام آباد پر چڑھائی کے اور کوئی راستہ بچتا نہیں تھا جسکا انہوں نے اعلان کیا پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم میں اس وقت دو سیاسی جماعتیں حصول اقتدار کے لیے سر دھڑ کی بازی لگارہی ہیں بظاہر تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان بڑے چھوٹے والا رشتہ دکھائی دیتا ہے مگر جیسے ہی کسی ایک کواقتدار میں آنے کا موقعہ ملے گا تووہ دوسرے کے کندھے پر پاؤں رکھ کراسکا سر کچلتا ہوا آگے نکل جائے گا ان کا مقصد اقتدار کے حصول کیلیے ایک دوسرے کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرنا اور پھر اقتدار میں آکر عوام کو بے وقوف بناناہے نواز شریف کا سیاسی سفر سب جانتے ہیں کہ وہ کیسے شروع ہوا انہوں نے اپنی سیاسی زندگی میں پہلی دفعہ جونیجو کی قربانی دی اورساز باز کرکے اقتدار میں آگئے، پھر انہوں نے جنرل ضیا کے مشن کو آگے بڑھانے کی کوشش کی اور بینظیر بھٹو کو کیا کیا القابات اور غداریوں کے سرٹیفکیٹ سے نوازا گیامخالفین کو انگریزوں کے کتے نہلانے کی بات کی،آصف زرداری کو دس پرسنٹ کا خطاب (ن) لیگ نے دیا گیارہ سال قید میں بھی انہی لوگوں نے رکھا،بے نظیر اور ان کے بچوں کو جیلوں کے تھڑوں پر بٹھایا، بلاول بھٹوشائد یہ بھول گئے ہیں کہ نواز شریف نے ان کی والدہ سے کس قسم کا سلوک روا رکھا، آصف زرداری کی زبان کس نے کٹوائی،ذوالفقار علی بھٹو کی وفات پر جن لوگوں نے خوشیاں منائیں۔
آج مسلم لیگ نون والے انہیں ساتھ بیٹھنے کی آفرز دے رہے ہیں نواز شریف پیپلز پارٹی کو آفر کر رہے ہیں کہ اس بار آپ آ جائیں اگلی بار ہم آ جائیں گے، نواز شریف پر جب بات آتی ہے تو وہ اپنے کارکنوں کو چھوڑ کر باہر بھاگ جاتے ہیں، پہلے سرور پیلس میں رہ رہے تھے اور کارکن یہاں رل رہے تھے اور اب بھی دھوکے سے بھاگے ہوئے ہیں، کوئی ان کی صحت کی بات نہیں کر رہا، نواز شریف نے واپس آنا بھی عدالتوں سے مشروط کر دیا ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کی کسی بات پر عوام یقین نہیں کر سکتے، ان کا مقصد اقتدار میں آ کر عوام کو بے وقوف بنانا ہے ان لوگوں نے ملک کو زوال پذیر کردیا، خزانے خالی کئے، یہ جیت جائیں تو الیکشن ٹھیک، ہار جائیں تو دھاندلی ہوئی ہے اس وقت پی ڈی ایم کی تحریک اقتدار کی لڑائی ہے،پچھلے چالیس سال سے ووٹر کی عزت کو داو پر لگانے کے بعد ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بے وقت کی راگنی اور عوام کو بے وقوف بنانے کا طریقہ اور نیا جال پرانے شکاری والی بات ہے۔
عوام کو رسوا کرنے والوں کو عوام کے درد کی بات کر نا زیب نہیں دیتا،عوامی تحریک کے انصاف کے حصول کے لئے دئے گئے دھرنے پر انگلیاں اٹھانے والے آج خود دھرنے اور مارچ کر رہے ہیں،سیلیکٹڈ اور خلائی مخلوق کے الزامات لگانے والے خود بھی اسی راستے کے مسافر ہیں اب آپ زرا غور کریں کہ پی ڈی ایم کے نام پر جمع ہونے والے قائدین ماضی میں ایک دوسرے کو چور لٹیرا ہونے پر وطن فروش اور عوام دشمن کہتے رہے اور اس وقت اپوزیشن کی اقتدارسے محرومی سر چڑھ کربو ل رہی ہے۔
کوروناوائرس نے دنیا کو لپیٹ میں لے رکھا ہے،کورونا لوگوں کو لپیٹ میں لینے میں تفریق نہیں کر رہا ہمارے ہسپتال مریضوں سے بھر رہے ہیں اور آئے روز اموات میں اضافہ بھی ہورہا ہے انہوں نے واپس محلات میں چلے جاناہے، کورونا کاسامناعوام نے کرناہے ان سیاسی لیڈروں کوتھوڑی سی بھی تکلیف ہوتوبیرون ملک بھاگتے ہیں۔لاہور کے جلسہ کے بعد عوام یہ سمجھتی ہے کہ جلسے جلوسوں کی بجائے سیاستدان اپنے مسئلے مسائل پارلیمان کے اندربیٹھ کر مذاکرات کے زریعے حل کریں کس نے این آر او لینا ہے اور کس نے این آر او دینا ہے کیونکہ اسمبلیوں میں بھی عوامی لوگ ہی بیٹھے ہوئے ہیں اور اس سلسلہ میں حکومت نے اپوزیشن کو مذاکرات کی پیشکش کی بھی تھی مگراپوزیشن کی ”میں نہ مانوں“کی رٹ برقرار رہی اور وہ چاہتے ہیں کہ عوام کو سڑکوں اور ٹی وی پر ایسے ہی مصروف رکھیں تاکہ اصل حقائق لوگوں کی نظر وں سے اوجھل رہیں اپوزیشن پی ڈی ایم کے پہلے جلسے کی طرح آخری جلسے میں بھی عوام کی فلاح و بہبود اور بہتری کا کوئی ایجنڈا پیش نہیں کر سکی بلکہ جلسہ میں آنے والے لوگوں کو کرونا میں ضرور مبتلا کردیا ہوگا۔
عوام نے نواز شریف،مریم صفدر او رمولانا فضل الرحمان سمیت ساری پی ڈی ایم کی منفی سیاست کولاہور میں دفن کر دیا ہے اس لئے اب انہیں کرپشن سے تائب ہو کر لوٹ مار کی دولت واپس کر کے نئے سرے سے سیاست کا آغاز کرناچاہیے جبکہ اپوزیشن کا جلسے سے قبل یہ اعلان کہ حکومت نے گرائنڈ میں پانی چھوڑ دیا،کنٹینر لگا اکر سڑکوں کو بلاک کردیا اور پارٹی کارکنوں کو گرفتار کیا جارہا ہے اس جلسہ کے بعد یہ تمام باتیں جھوٹی ثابت ہوئی ہیں پنجاب حکومت نے کہیں کوئی کنٹینرنہیں لگایاگیا نہ ہی پنجاب بھر میں پولیس نے کسی کوجلسے میں جانے سے نہیں روکا اور نہ ہی جلسہ گاہ میں داخلے کے حوالہ سے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی بلکہ شیخ رشید نے اپنی وزارت سنبھالتے ہی اپنے پہلے امتحان میں بہترین کامیابی حاصل کرلی ہے۔