روس (اصل میڈیا ڈیسک) رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز نے اپنی سالانہ رپورٹ برائے سن 2020 کا اجرا کر دیا ہے۔ اس غیر حکومتی تنظیم نے واضح کیا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں قریب چار سو صحافی جیلوں میں مقید ہیں۔
رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز نے اس رپورٹ میں مختلف ممالک میں میڈیا کے افراد کے لیے مشکل حالات پر خاص فوکس کیا ہے اور بتایا کہ اس وقت مختلف ملکوں میں تین سو ستاسی صحافی اور میڈیا کارکن جیلوں میں پابند ہیں۔
اس رپورٹ میں چین کے علاوہ بیلا روس میں صحافیوں اور ذرائع ابلاغ کے افراد کے لیے مجموعی صورِت حال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ کئی مقید صحافیوں کو علالت کی وجہ سے مناسب طبی سہولیات تک رسائی نہ ملنے پر بھی افسوس ظاہر کیا ہے۔
رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز نے بیلا روس میں صدارتی انتخابات کے نتائج کے اعلان کے بعد شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی کوریج کے دوران گرفتار ہونے والے صحافیوں کے حوصلے کی تعریف بھی کی۔ بیلا روس میں حکومتی کریک ڈاؤن میں تین سو ستر صحافیوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان میں سے بیشتر کو بعد ازاں رہائی دے دی گئی تھی۔
رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کے مطابق دنیا بھر میں 387 کے قریب صحافیوں میں سے نصف پانچ ممالک میں مقید ہیں۔ ان میں ایک سو سترہ صحافی اس وقت چین کی مختلف جیلوں میں پابند ہیں۔ اس کے بعد بقیہ چار ملکوں میں سعودی عرب، مصر، ویت نام اور شام ہیں۔ میکسیکو بھی ایک انتہائی خطرناک ملک ہے جہاں منظم جرائم پیشہ گروپس اپنے مخالف صحافیوں کو قتل کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
کورونا وائرس کی وبا کے دوران بھی ایک سو تیس میڈیا افراد کو بیماری کو کنٹرول کرنے کے ناقص انتظامات اور بیمار افراد کو طبی سہولیات نہ ملنے کی رپورٹنگ کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے چودہ کو جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔
صحافیوں کی مشکلات کے بارے میں تفصیلات رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کی جرمن آفس سے منسلک کاتیا گلوگیر نے صحافیوں کی گرفتاریوں کے حوالے سے حکومتی اقدامات اور درپیش دھمکی امیز صورت حال کی مذمت کی ہے۔
کورونا وائرس کی وبا کے دوران ہونے والی گرفتاریوں کے حوالے سے کاتیا گلوگیر کی ساتھی سلویا اہرینس اوربان نے بتایا کہ زمبابوے میں ایک صحافی ہوپ ویل چینونو کو اس وجہ سے گرفتار کیا گیا کہ انہوں نے حکومت کی طرف سے کووڈ کی ایک دوا کی مبینہ فروخت کو رپورٹ کیا تھا۔
چینونو کئی مہینوں سے جیل میں ہیں اور ان کی درخواست برائے ضمانت کو ماتحت عدالت نامنظور کرتی چلی آ رہی ہے۔ رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کے نمائندوں نے صحافیوں کو اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران ہونے والی گرفتاریاں اور پھر بعض پر فوجداری مقدمات شروع کرنے کو ایک افسوس ناک امر قرار دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کریک ڈاؤن یا گرفتاریوں سے آزادئ صحافت کو محدود کر دیا جاتا ہے۔پاکستانی صحافیوں کی ’سیلف سنسرشپ‘ اور خوف
ایران میں رواں برس کے دوران یکم دسمبر تک پانچ صحافیوں کو حکومت مخالف رپورٹنگ کی الزامات کی پاداش میں پھانسی گھاٹ پر پہنچایا گیا۔ آخری پھانسی بارہ دسمبر کو روح اللہ زم کو دی گئی۔ ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے سن 2017 اور 2018 میں حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کی تھی اور ان کی خصوصی کوریج کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔
زم کو چودہ اکتوبر کو بیرون ملک سے واپس پہنچنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ ایسی رپورٹیں بھی ہیں کہ روح اللہ زم کو عراق میں گرفتار کر کے جبری طور پر ایران منتقل کیا گیا تھا۔ رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز نے برطانیہ کی جیل میں مقید صحافی اور وکی لیکس ویب سائٹ کے بانی جولیان اسانج کی مسلسل خراب ہوتی صحت کے حوالے سے بھی اپنی تشویش ظاہر کی ہے۔
اسانج اس وقت انتہائی سکیورٹی کی جیل بیلمارش میں ہیں۔ صحافیوں سے متعلق سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ شام، عراق اور یمن میں میڈیا سے وابستہ چون افراد کو اغوا کیا گیا اور ان میں سے کئی کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔