افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان کے معروف صحافی رحمت اللہ نیک زاد کو ان کے گھر کے پاس ہی گولی مار کر اس وقت ہلاک کر دیا گیا جب وہ قریب کی ایک مسجد کی طرف جا رہے تھے۔ وہ مقامی صحافیوں کی ایک تنظیم کے سربراہ بھی تھے۔
افغانستان میں صحافی رحمت اللہ نیک زاد کے قتل کی ہر جانب سے شدید الفاظ میں مذمت کی جارہی ہے۔ ملک کے صدر اشرف غنی نے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے دہشت گردانہ حملہ قرار دیا ہے۔ پیر 21 دسمبر کے روز نیک زاد کو ایک نا معلوم حملہ آور نے اس وقت گولی مار کر قتل کر دیا جب وہ اپنے گھر کے قریب ایک مسجد کی طرف جا رہے تھے۔
مقامی پولیس کے ایک ترجمان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ حملہ آور نے رحمت اللہ نیک زاد کو قتل کرنے کے لیے ایسی بندوق کا استعمال کیا جو سائلینسر سے لیس تھی اور انہیں ان کے گھر کے پاس ہی قتل کر کے فرار ہو گیا۔
رحمت اللہ نیک زاد کا تعلق صوبہ غزنی سے تھا جہاں وہ مقامی صحافیوں کی ایک تنظیم کے صدر بھی تھے۔ افغانستان میں صحافیوں کی ایک تنظیم ‘افغان جرنلسٹ سیفٹی کمیٹی’ کے مطابق ایک فری لانس صحافی کی حیثیت سے نیک زاد خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس اور معروف میڈیا ادراے الجزیرہ کے لیے کام کیا کرتے تھے۔
رحمت اللہ نیک زاد کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ پیشہ ور صحافی کے طور پر وہ اپنی رپورٹ میں ہر رخ کو بیان کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ انہیں امریکا، افغان حکومت اور طالبان سبھی نے متعدد بار گرفتار بھی کیا تھا۔ انہوں نے اپنے پیچھے چھ بچوں کو چھوڑا ہے۔
طالبان نے اس حملے میں ملوث ہونے سے انکار کیا اور ایک بیان میں اسے بزدلانہ حملہ بتایا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا، ”ہم اس قتل کو ملک کے ایک بڑے نقصان کے طور پر دیکھتے ہیں۔” صوبہ غزنی کا ایک بڑا علاقہ اب بھی طالبان کے زیر اثر ہے۔
افغانستان میں حالیہ مہینوں میں ہونے والے متعدد حملوں کا الزام شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ پر عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ ان میں سے بعض حملوں میں صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
صحافت کی آزادی کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم ‘رپورٹرس ودآؤٹ بارڈرز’ نے افغانستان کو صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں سے ایک قرار دے رکھا ہے۔ افغانستان کی ‘جرنلسٹ سیفٹی کمیٹی’ کا کہنا ہے اس برس اب تک ملک میں کم سے کم سات میڈیا اہلکاروں کو قتل کیا جا چکا ہے، جب کہ پچھلے دو ماہ کے دوران پانچ صحافیوں کو ہلاک کردیا گیا۔
نومبر کے اوئل سے ہی ہدف بناکر صحافیوں کو قتل کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا اس میں کہیں بم تو کہیں گولیوں سے انہیں نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران طلوع نیوز کے میزبان یاما سیواش، ریڈیو آزادی کے رپورٹر الیاس داعی، انعکاس ٹی وی کی اینکر ملالائی میوند اور اریانا نیوز کے میزبان فریدین امینی جیسے صحافیوں کو قتل کیا گیا ہے۔
افغانستان میں امن کے قیام کے لیے گرچہ طالبان قیادت اور حکومت کے درمیان بات چیت جاری ہے تاہم اس کے باوجود حالیہ مہینوں میں خطے میں تشدد میں کمی کے بجائے اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس دوران اہم سیاست دانوں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنان سمیت متعدد اہم شخصیات کو قتل کیا جا چکا ہے۔ فی الوقت دوحہ میں جاری امن بات چیت بھی آئندہ برس کے اوائل تک کے لیے موخر ہے۔