افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان کے نائب صدر نے طالبان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مذاکراتی عمل میں شریک ہوتے ہوئے پرتشدد کارروائیوں کو ترک کر دیں۔ افغانستان میں حالیہ ہفتوں کے دوران مسلح حملوں کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
افغان نائب صدر امر اللہ صالح نے ہفتہ چھبیس دسمبر کو قومی مصالحتی کمیشن میں شریک مختلف سرکردہ رہنماؤں کی میٹنگ کی دوسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے طالبان کو مشورہ دیا کہ وہ پرتشدد راستے سے اجتناب کرتے ہوئے امن مذاکرات کے ذریعے حکومت کا حصہ بنیں۔
انہوں نے طالبان تحریک پر واضح کیا کہ وہ ان حملوں سے سارے افغانستان پر اپنا تسلط قائم نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے راستے میں عوام اور حکومتی فوج بھی کھڑی ہے۔ نائب صدر کے اس بیان پر طالبان کا ردِعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
ملکی صدر اشرف غنی کے قریبی ساتھی اور نائب صدر امر اللہ صالح کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغان سرزمین ایک پیچیدہ اور مشکل ملک ہے اور اس پر کسی ایک گروپ کا تسلط قائم ہونا ناممکن ہے۔ صالح کے مطابق ایسا کرنے والا گروپ انجام کار سارے ملک اور لوگوں سے کٹتے ہوئے تنہا رہ جاتا ہے۔
کابل حکومت کے نائب صدر کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان قبائلی سرداروں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے افراد کو ہلاک کرنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ملک پر کنٹرول کی جنگ نہیں جیت سکتے اور ایسا کرنے سے مجموعی صورت حال انتہائی گھمبیر اور مشکلات کا شکار ہو کر رہ جائے گی۔
کابل حکومت اور طالبان کے امن مذاکرات کا سلسلہ تعطل کے ساتھ ساتھ جاری ہے۔ طالبان کا اصرار ہے کہ کابل حکومت غیر اسلامی ہے اور اس کے خلاف مسلسل عملی کوششیں جائز ہیں اور انجام کار وہ ملک پر ایک مکمل اسلامی حکومت قائم کر کے رہیں گے۔
طالبان تحریک کے نمائندوں اور اشرف غنی حکومت کے وفد کے درمیان مذاکرات خلیجی ریاست قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری ہیں۔ ابھی تک صرف ایک پیش رفت یہ دیکھی گئی ہے کہ طالبان مذاکرات جاری رکھنے پر راضی ہیں۔
افغانستان کو اس وقت ایک اور طرح کی پرتشدد صورت حال کا سامنا ہے۔ مسلح جہادی مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو قتل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایک واردات میں چار ہیلتھ ورکرز کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ انتخابات کی نگرانی کرنے والے مبصر گروپ کا سربراہ اپنے ڈرائیور کے ہمراہ ایک حملے میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
خواتین کے حقوق کی غیر حکومتی تنظیم سے منسلک ایک خاتون کارکن کو اس کے بھائی سمیت گولیاں مار کر موت کی وادی میں اتار دیا گیا۔ بظاہر ان حملوں کی ذمہ داری کابل حکومت کی جانب سے طالبان پر عائد کی گئی ہے۔ ہفتہ چھبیس دسمبر کو کابل کے مختلف علاقوں میں چار دھماکے ہوئے ہیں اور ان کی ذمہ داری کسی عسکری گروپ نے قبول نہیں کی ہے۔
اہم جنگی سردار عبد الرشید دوستم نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ دوحہ مذاکرات میں کابل حکومت یہ بات طالبان پر واضح کر دے کہ وہ ملک میں ایک جمہوری حکومت کے قیام کو تسلیم کریں اور عوام میں اپنی مقبولیت کے امتحان کے طور پر اپنے نمائندوں کو حکومتی عہدوں پر نامزد کریں۔
ایک سابق نائب صدر یونس قانونی نے غنی حکومت پر سلامتی کی ناقص صورت حال کے تناظر میں کڑی تنقید کی ہے۔ انہوں نے کابل حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ تشدد کو قابو کرنے کے اعلیٰ سطحی اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔