اس کرہِ ارض پر شہنشائیت اور فوجی راج کے تباہ کن اثرات کے باعث پوری دنیا میں جمہوریت کا غلغلہ بلند ہو چکا ہے اور عوام ہی ہر جمہوری مملکت کے اصل وارث قرار پائے ہیں ۔پاکستان ان معدودے چند ممالک میں شامل ہے جس کی بنیادوں میں جمہوری قدروں کی تابناک روایات کا حسن مضمر ہے۔پاکستان نہ صرف جمہوری قدروں کا امین ہے بلکہ اس کے عوام نے انتہائی جبرو کراہ کے باوجود قربانیاں دینے میں کبھی لیت و لعل سے کام نہیںلیا ۔ جمہوریت کی داستان اگر خونِ دل سے رقم نہ کی جاتی تو یہاں آج بھی طالع آزما بر سرِ اقتدار ہوتے ۔فوجی جنتا اور جاگیر داروں کے باہمی گٹھ جوڑھ سے جو تار پور بنے گے تھے اس میں عوامی حاکمیت کا کہیں کوئی گزر نہیں تھا لہذا چند مخصوص خاندانوں کا اقتدار کی مسند پر جلوہ افروز ہونا ایک روائت بن چکا تھا۔جنرل محمدایوب خان کے فوجی شب خون کے بعد سیاست ڈرائنگ روموں کی زینت بن کر رہ گئی تھی۔٢٢ خاندانوں کے قیام کے بعد عوام کو سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کے رحم کرم پر چھوڑ دیا گیا تھا۔
عوام کی معاشی اور سماجی حیثیت قابلِ رحم حدوں کو چھو رہی تھی جس سے وہ غربت کی چکی میں پستے جا رہے تھے ۔قیامِ پاکستان کے وہ تمام مقاصد جن کی خاطر برِ صغیر کی تقسیم عمل میں لائی گئی تھی پسِ پشت چلے گے تھے اور عوام نے جس سحر کی نویدمیں قربانیوں کی انمٹ تاریخ رقم کی تھی وہ دھیرے دھیرے دم توڑ رہی تھی۔مایوسی کی گھٹائیں خوشیوں اور امیدوں کو ہڑپ کر رہی تھیں اور عوام بد دلی کا شکار ہو کر اپنی قسمت کو کوس رہے تھے ۔یہ عوام کی خوش قسمتی تھی کہ انھیں ذولفقار علی بھٹو کی صورت میں ایک ایسا قائد میسر آیا جس نے (طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں) کا نعرہ مستانہ بلند کر کے اقتدار کے فرسودہ نظام کو ملیا میٹ کرنے کا بیڑہ اٹھا یا۔٣٠ نومبر ١٩٦٧ کو پی پی پی کا قیام اس کی جانب ایک انتہائی اہم قدم تھا ۔،۔
پی پی پی کے قیام سے سیاست محلوں سے نکل کر گلی کوچوں اور جھونپڑوںکی زینت بن گئی۔ دسمبر ١٩٧١ کو پی پی پی عوامی طاقت کے اسی نعرے کی بدولت اقتدار کی مسند پر جلوہ افروز ہو ئی تو عوامی حاکمیت کا سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمکنے لگا۔ ذولفقار علی بھٹو کے پانچ سالہ دورِ حکومت میں ١٩٧٣ کا آئین منظور ہوا،اسلامی دنیا سے روابط میں اضافہ ہوا،ایٹمی توانائی کے لئے کہوٹہ لیبارٹی قائم کی گئی، سٹیل مل کا قیام ممکن ہوا،متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے مزدور کسان پارلیمنٹ کا حصہ بنے۔مشرقِ وسطی میں لیبر فورس کی ترسیل نے خوشخالی کے نئے دروازے کھولنے میں معاونت کی۔پاکستان کی دفاعی اور فوجی قوت میں بے پناہ اضافہ عمل میں آیا جس سے ذولفقار علی بھٹو کی عوامی مقبولیت اپنی انتہائوں کو چھونے لگی۔
عوامی حاکمیت میں رنگا ہوا ماحول، آزادی کی نعمت اور عوام کی خوشخالی امریکہ کو ایک آنکھ نہ بھائی اور یوں پاکستان کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم کو ایک شب خون کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کر کے سرِ دار کھینچ دیا گیا۔جنرل ضیا الحق کا دس سالہ عہدِ حکومت آمریت کا انتہائی بے رحم باب تھا جس میں اسی ہزار سے زائد لوگوں کو سرِ عام کوڑے مارے گے اور سینکڑوں کو پھانسی گھاٹوں کی نذر کیا گیا۔سفاکیت کے ان جان لیوا لمحوں میں جیالوں نے جمہوری شمع کی حفاظت کی خاطر جو قربانیاں دیں وہ تاریخ عالم کا انمول خزانہ ہیں ۔ لوگ زندانوں کو رونق بخشتے رہے،سرِ دار جھولتے رہے اور کوڑوں کی ضربوں سے اپنی پشتوں پر محبتوں کے چاند ستارے بناتے رہے ۔ جمہوریت سے عوامی کمٹمنٹ نے جو پھول کھلائے ان کی خوشبو سے پاکستان میں جمہوریت کا پودا آج بھی ترو تازہ ہے۔ ،۔
غیر معمولی قربانیوں کے بغیر جمہوریت کی بقا ممکن نہیں تھی اور اس کا سہرا پی پی پی کے سر بندھتا ہے ۔شب خونوں کی داستان وقفوں وقفوں سے پاکستان میں دہرائی جاتی رہی لیکن کوئی نہ کوئی با جرات راہنما میدانِ عمل میں نکل کر جمہوریت کی شمع کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیتا ۔جنرل ایوب خان،جنرل ضیا الحق ،جنرل یحی خان،جنرل پرویز مشرف اپنی بے پناہ سفاکیت کے باوجود پاکستانی عوام کے دلوں میں موجزن جمہوری محبت کو نکالنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ایک وقت تھا کہ ذولفقار علی بھٹو نے اپنی جان کی قربانی دی تھی لیکن جب جنرل پرویز مشرف کی آمریت طول ہوتی گئی تو محترمہ بے نظیر بھٹو کو میدانِ عمل میں نکل کر آمر کو للکارنا پڑا۔انھیں للکار کے عواقب سے ڈرایا گیا، دھمکایا گیا ،موت کا خوف دلایا گیا لیکن جس کے عظیم باپ نے جمہوریت کا سفر سراٹھا کر طے کیا ہو اس کی جیالی بیٹی کو کوئی کیسے ڈرا سکتا تھا ؟ محترمہ بے نظیر بھٹو ١٨ اکتوبر ٢٠٠٧کو جمہوری قافلہ کی قیادت کرنے کیلئے پاکستان کی جانب عازمِ سفر ہو ئیں تو انھیں روکنے کی بڑی کوششیں ہوئیں لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر عوامی حاکیت کا پرچم بلند کرنے کیلئے ہر قسم کے سمجھوتہ کو پسِ پشت ڈال دیا۔ان کی یہ جرات کچھ حلقوں کو ناگوار گزری لہذاانھیں راہ سے ہٹانے کا فیصلہ صادر ہو گیا ۔٢٧ دسمبر ٢٠٠٧ اس فیصلہ کے عمل کا دن ٹھہرا ، جبکہ یہی دن پاکستان میں جمہوریت کے سورج کے طلوع ہونے کاموجب بھی بنا۔عوامی غم و غصہ کے سامنے آمریت کی ساری نشانیاں دھیرے دھیرے گم ہوتی گئیں۔ان کی حیثیت کاغذی ہو گئی ۔ریاست اپنا وجود کھو چکی تھی اور آمر کی بولتی بند ہو گئی تھی لیکن آصف علی زرداری کی (پاکستان کھپے ) کی ایک آواز نے عوامی غم و غصہ کے اس طوفان کے سامنے بند باندھا تو ریاست کی رٹ بحال ہوئی ۔،۔
اس کرہِ ارض پر محترمہ بے نظیر بھٹو کا لہو جمہوریت کا استعارہ بن چکاہے۔عوام کی خاطر دی گئی قربانیوں کا یہی صلہ ہوا کرتا ہے۔اس سے کوئی بحث نہیں کہ کوئی پی پی پی کو پسند کرتا ہے یا کہ نہیں ،کوئی پی پی پی کو ووٹ دینے کی زحمت گوارا کرتا ہے یا کہ نہیں لیکن یہ بہر حال کھلا سچ ہے کہ پاکستان کا ہر ایک فرد محترمہ بے نظر کی جراتوں ،بسالتوں ، قربانیوں اور جی داریوں کا دل سے معترف ہے۔دشمن بھی سرِ عام جس شخصیت کا نام لینے میں فخر محسوس کریں تو پھر اس شخصیت کی عظمتوں میں کونسی شہ باقی رہ جاتی ہے؟ بی بی شہید سچی تھیں،مخلص تھیں،عوام دوست تھیں اور ریاکاری سے کوسوں دور تھیں ۔مخالف جماعتوں کو اعتراض ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے حسبِ روائت اپنی بالا دستی کیلئے ایک نئی جماعت پی ٹی آئی کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا جس پر انھیں تحفظات ہیں لہذا وہ صاف شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ان کا مطالبہ بھی جمہور ی ہے کیونکہ آئینِ پاکستان سیاسی جماعتوں کو جلسے جلوسوں، لانگ مارچ اور دھرنے کی اجازت دیتا ہے۔اس وقت متحارف سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں ۔وہ اسٹیبلشمنٹ کے بھنے گے جال سے رہائی کی آوازیں بلند کر رہی ہیں اور حقیقی جمہوریت کی طلبگار ہیں۔
ملک میں افرا تفری کا ماحول ہے،عوام کا معاشی قتل ہو رہا ہے ،وہ کچلے جا رہے ہیں اور ان کی غربت میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔اس باہمی کشمکش کے باوجود جمہوریت کی گاڑی پٹری سے اترنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں کیونکہ عوام کا نعرہ ( ووٹ کو عزت دو) ہے۔اسٹیبلشمنٹ کیلئے اس وقت انتہائی سنگین صورتِ حال ہے کیونکہ جس حکومت سے انھوں نے امیدیں وابستہ کی ہوئی تھیں وہ برنہیں آ سکیں ۔پاکستان کی علاقائی سالمیت کشمیر پر بھارتی قبضہ سے کمزور ہو ئی ہے۔اپنے دیرینہ دوستوں سے پاکستان کے سفارتی تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں اور عوام کی بے روزگاری میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا ہے۔اس وقت پاکستان میں جمہوری عمل میں رکاوٹ کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ جمہوریت کے پودے کو عوام نے اپنے لہو سے سینچا ہے۔وقت کا وہ ظالم پنچھی کب کا اڑ چکا ہے جو شب خونوں کی نوید لایا کرتا تھا۔سچ تو یہ ہے کہ بی بی شہید کا لہو جمہوریت کی بقا کی ضمانت ہے لہذا کوئی اسے قتل کرنے کی جرات نہیں کر سکتا ۔،۔