برطانیہ (اصل میڈیا ڈیسک) جولیان اسانج کے والد نے امید ظاہر کی ہے کہ نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن ان کے بیٹے کو صدارتی معافی دے دیں گے۔ امکان ہیں کہ برطانوی حکومت وکی لیکس کے بانی اسانج کو امریکا کے سپرد کر دے گی۔
برطانیہ کی ایک عدالت چار جنوری کو جولیان اسانج کی امریکی حوالگی کے حوالے سے دائر کردہ ایک درخواست پر اپنا فیصلہ سنائے گی۔ اسانج کے والد جان شپٹن نے اس خوف کا اظہار کیا ہے کہ عدالت ان کے بیٹے کو امریکا حوالے کرنے کے حق میں فیصلہ سنا سکتی ہے۔
تاہم 76 سالہ شپٹن نے امید ظاہر کی ہے کہ ڈیموکریٹ سیاستدان جو بائیڈن امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اسانج کو معافی دے دیں گے۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے گفتگو میں انہوں نے مزید کہا کہ وہ موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنے بیٹے کی صدارتی معافی کی درخواست کرتے ہوئے اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے۔
شپٹن کا کہنا تھا کہ اگر جج قواعد و ضوابط کے تحت کارروائی کریں گے تو وہ اسانج کو امریکا حوالے کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ اگر ری پبلکن پارٹی کی پالیسی پر عمل پیرا ہوں تو امریکا پہنچنے پر وہ اسانج کو صدارتی معافی دے سکتے ہیں۔
جان شپٹن کے مطابق وہ امریکا جائیں گے اور نومنتخب صدر جو بائیڈن کی ٹرانزیشن ٹیم سے اپنے بیٹے کی معافی کی وکالت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی آئین میں پہلی ترمیم یعنی آزادی رائے امریکی جمہوریت کے لیے ایک خزانے کے مانند ہے اور اس پر عملدرآمد یقینی بنانا چاہیے۔
جان شپٹن اس وقت آسٹریلیا میں ہیں اور امریکا سفر کی خاطر حکومت سے اجازت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔ کووڈ کی عالمی وبا کی وجہ سے فی الحال آسٹریلوی حکومت نے سفری پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
جولیان اسانج اس وقت برطانیہ میں بیلمارش کی جیل میں ہیں۔ کووڈ انیس کی وجہ سے عائد کردہ پابندیوں کے باعث وہ کسی سے ملاقات نہیں کر سکتے۔ تاہم وہ روزانہ دس منٹ کے لیے اپنے بچوں اور بیس منٹ کے لیے اپنے وکلاء سے ٹیلی فون پر بات چیت کر سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب نیلز میلزر نے بھی کہا ہے کہ اسانج کی قسمت کا فیصلہ صرف جو بائیڈن کے ہاتھوں میں ہی ہے۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو میں میلزر نے کہا کہ اسانج کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے اور انہیں لگتا ہے کہ ان کے خلاف لندن میں شفاف مقدمہ بھی نہیں چلایا گیا۔
نیلز میلزر کے مطابق برطانوی جیل میں قید جولیان اسانج کی صحت تیزی سے بگڑ رہی ہے اور ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نو منتخب امریکی صدر کو چاہیے کہ وہ اسانج کو معافی دے دیں۔
انچاس سالہ اسانج پر اگر امریکا میں الزامات ثابت ہو جاتے ہیں کہ انہوں نے امریکی فوج کی کلاسیفائیڈ دستاویزات چوری کر کے انہیں عام کیے ہیں تو انہیں 175 برس کی سزائے قید سنائی جا سکتی ہے۔
ان خفیہ دستاویزات کے شائع ہونے کے بعد عراق اور افغانستان میں امریکی فوج کے جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا تھا۔
برطانیہ میں واقع ایکواڈور کے سفارتخانے میں سات برسوں سے پناہ لیے ہوئے اسانج کو برطانوی پولیس نے اپریل سن دو ہزار انیس میں گرفتار کر لیا تھا۔ ایکواڈور میں حکومت کی تبدیلی کے بعد نئی قائم ہونے والی حکومت نے اسانج کو مزید پناہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔